You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، وَاللَّفْظُ لِحَرْمَلَةَ، قَالَ أَبُو الطَّاهِرِ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ حَرْمَلَةُ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيَّ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، فَبَتَّ طَلَاقَهَا، فَتَزَوَّجَتْ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ رِفَاعَةَ، فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ، فَتَزَوَّجْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ، وَإِنَّهُ وَاللهِ، مَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ الْهُدْبَةِ، وَأَخَذَتْ بِهُدْبَةٍ مِنْ جِلْبَابِهَا، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِكًا، فَقَالَ: «لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ، لَا، حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ»، وَأَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ جَالِسٌ بِبَابِ الْحُجْرَةِ، لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، قَالَ: فَطَفِقَ خَالِدٌ يُنَادِي أَبَا بَكْرٍ: أَلَا تَزْجُرُ هَذِهِ عَمَّا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
A'isha (Allah be pleased with her), the wife of Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ), reported that Rifa'a al-Quraid (Allah be pleased with him) divorced his wife, making her divorce irrevocable. Afterwards she married Abd at-Rahman b. al-Zubair (Allah be pleased with him), She came to Allah'sApostle (may peace be upon him and said to Allah's messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) that she had been the wife of Rifa'a (Allah be pleased with him) and he had divorced her by three pronouncements and afterwards she married 'Abd al-Rahman b. al-Zubair. By Allah, all he possesses is like the fringe of a garment, and she took hold of the fringe of her garment. Thereupon Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) laughed and said: Perhaps you wish to return to Rifa'a, (but you) cannot (do it) until he has tasted your sweetness and you have tasted his sweetness. Abu Bakr al-siddiq (Allah be pleased with him) was sitting at that time with Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and Khalid b. Sa'id b. al-'As (Allah be pleased with him) was sitting at the door of his apartment and he was not permitted to (enter the room), and Kbalid called loudly saying: Abu Bakr, why don't you scold her for what she is saying loudly in the presence of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم )?
یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ رفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور قطعی (آخری) طلاق دے دی، تو اس عورت نے اس کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر (قرظی) سے شادی کر لی، بعد ازاں وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! وہ رفاعہ کے نکاح میں تھی، اس نے اسے تین طلاق بھی دے دی، تو میں اس کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر سے شادی کر لی اور وہ، اللہ کی قسم! اس کے پاس تو کپڑے کے کنارے کی جھالر کی مانند ہی ہے، اور اس نے اپنی چادر کے کنارے کی جھالر پکڑ لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا:شاید تم رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو؟ نہیں! یہاں تک کہ وہ تمہاری لذت چکھ لے اور تم اس کی لذت چکھ لو۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے اور خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ حجرے کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے، انہیں (ابھی اندر آنے کی) اجازت نہیں ملی تھی۔ کہا: تو خالد نے (وہیں سے) ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پکارنا شروع کر دیا: آپ اس عورت کو سختی سے اس بات سے روکتے کیوں نہیں جو وہ بلند آواز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہہ رہی ہے
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2639 ´جو اپنے تئیں چھپا کر گواہ بنا ہو اس کی گواہی درست ہے` «. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفاعَةَ الْقُرَظِيِّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ فَطَلَّقَنِي، فَأَبَتَّ طَلَاقِي، فَتَزَوَّجْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ إِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَقَالَ: أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ لَا حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ، وَأَبُو بَكْرٍ جَالِسٌ عِنْدَهُ، وَخَالِدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ بِالْبَابِ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ، فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ: أَلَا تَسْمَعُ إِلَى هَذِهِ مَا تَجْهَرُ بِهِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .» ”. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کی نکاح میں تھی۔ پھر مجھے انہوں نے طلاق دے دی اور قطعی طلاق دے دی۔ پھر میں نے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ سے شادی کر لی۔ لیکن ان کے پاس تو (شرمگاہ) اس کپڑے کی گانٹھ کی طرح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا ”کیا تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے لیکن تو اس وقت تک ان سے اب شادی نہیں کر سکتی جب تک تو عبدالرحمٰن بن زبیر کا مزا نہ چکھ لے اور وہ تمہارا مزا نہ چکھ لیں۔“ اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں موجود تھے اور خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ دروازے پر اپنے لیے (اندر آنے کی) اجازت کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا، ابوبکر! کیا اس عورت کو نہیں دیکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی باتیں زور زور سے کہہ رہی ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الشَّهَادَاتِ: 2639] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2639 کا باب: «بَابُ شَهَادَةِ الْمُخْتَبِي:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں اپنے تئیں چھپ کر گواہ بنانے کو جائز قرار دیا ہے اور حدیث جو نقل فرمائی ہے اس میں ترجمۃ الباب سے موافقت موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «والغرض منه إنكار خالد بن سعيد على أمرأة رفاعة ما كانت تكلم به عند النبى صلى الله عليه وسلم مع كونه محجوبًا عنها خارج الباب، ولم ينكر النبى صلى الله عليه وسلم عليه ذالك» [فتح الباري، ج 6، ص: 212] ”یعنی ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ دروازے کے باہر تھے، عورت کے سامنے نہ تھے باوجود اس کے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے ایک قول کی نسبت اس عورت کی طرف کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے اپنے تئیں چھپ کر گواہی دینے پر) کوئی اعتراض نہیں کیا۔“ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے قول میں ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اس عورت کی گفتگو کے بارے میں انکار فرمایا کہ وہ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کر رہی ہے، اور اس شہادت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں روکا، اور سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کا انکار ان کی آواز کی وجہ سے تھا جو انہیں سنائی دے رہی تھی۔ لہٰذا سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے تئیں گواہی چھپا کر دی اس عورت کی۔“ [عمدة القاري، ج 13، ص: 693] علامہ عبدالحق الہاشمی الہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے مناسبت کی غرض یوں ہے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے انکار فرمایا تھا اس خاتون کا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کر رہی تھیں اور اس وقت سیدنا خالد رضی اللہ عنہ دروازے کے پیچھے تھے (ان کی اس گواہی پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار نہیں کیا، پس سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے اس خاتون کی آواز پر اعتماد کیا یہاں تک کہ اس کے (اس فعل سے) انکار کیا۔“ [لب اللباب فى تراجم والأبواب، ج 3، ص: 344] بعض حضرات نے «شهادة المختبئ» کا انکار کیا ہے۔ ابن الملقن رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «فاختلف العلماء فى شهادة المختبئ، فروي عن شريح والشعبي [عبدالرزاق: 355/8، و ابن أبى شيبة: 432/4] والنخعي أنهم كانوا لا يجيزونها وقالوا انه ليس بعدل حين اختبأ ممن يشهد عليه وهو قول أبى حنيفة والشافعي.» [معرفة السنن والاثار: 345/14] یعنی علماء نے «مختبئ» کی شہادت پر اختلاف کیا ہے، پس شریح، الشعبی اور نخعی سے «مختبئ» کی شہادت کا انکار موجود ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ [مختصر الطحاوي، ص: 336] امام مالک رحمہ اللہ «شهادة المختبئ» کے بارے میں فرماتے ہیں: ”جب آدمی عورت پر گواہی دے پردے کے پیچھے اور وہ اس عورت کو جانتا بھی ہو اور اس کی آواز پہچانتا بھی ہو تو (اس صورت میں) اس کی گواہی جائز ہو گی۔“ اور مزید آپ فرماتے ہیں: ”یقینا لوگ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے پاس جایا کرتے تھے (دینی مسائل کے دریافت کے لیے) اور ان حضرات اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے درمیان پردہ حائل ہوا کرتا تھا۔ پس وہ حضرات امہات المومنین رضی اللہ عنہن سے سنا کرتے اور ان سے احادیث بیان کیا کرتے تھے۔“ [النادر والذيادات، ج 8، ص: 258] لہذا اس دلیل سے «مختبئ» کی شہادت کی قبولیت کی واضح دلیل فراہم ہوتی ہے۔ ایک اشکال اور اس کا جواب: کتب احادیث میں تین قسم کے واقعات اسی نوعیت کے ملتے ہیں جن کی وجہ سے کئی حضرات نے ان واقعات کو ایک ہی شمار کیا ہے، جو کہ غلط ہے۔ ایک واقعہ جو مذکورہ حدیث میں موجود ہے، دوسرا واقعہ بعین اسی نوعیت کا مفسرین نے ذکر فرمایا ہے۔ قرآن مجید کی آیت: « ﴿فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ » [البقرة: 230] کے نزول میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ آیت عائشہ بنت عبد الرحمن بن عتیک کے متعلق نازل ہوئی۔ وہ اپنے چچا زاد رفاعہ بن وہب کے نکاح میں تھیں، رفاعہ بن وہب نے انہیں تین طلاقیں دیں تو انہوں نے عبدالرحمن بن زبیر سے شادی کی، عبدالرحمن نے انہیں طلاق دی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں کہ عبدالرحمن نے مجھے جماع کے بغیر ہی طلاق دے دی۔ اب کیا میں پہلے شوہر کے پاس جا سکتی ہوں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ [الدر المنثور: 1283/1 - فتح الباري، ج 9، ص: 581] بعض حضرات نے ان دو واقعات کو ایک ہی شمار کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «فالواضح من سياقه انها قصة أخرى وان كلا من رفاعة القرظي ورفاعة النضري وقع له من زوجة له طلاق فتزوج كلا منهما عبدالرحمن بن الزبير فطلقها قبل ان يمسها فالحكم فى قصتهما متحد مع تغاير الأشخاص.» [فتح الباري، ج 9، ص: 581] ”سیاق سے واضح یہ ہے کہ مذکورہ دونوں واقعات الگ الگ ہیں۔ کیونکہ پہلا واقعہ رفاعہ بن سموال کی بیوی کا ہے، اور دوسرا واقعہ رفاعہ بن وہب کا ہے، اور دونوں عورتوں نے دوسری شادی عبدالرحمن بن زبیر سے کی۔“ حافظ صاحب کے اقتباسات سے واضح ہوا کہ مذکورہ دونوں واقعات مختلف ہیں مگر ان میں اشتراک اس بات کا ہے کہ دونوں خاتوں نے نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے کیا تھا۔ تیسرا واقعہ بھی اسی نوعیت کا ہے جسے امام نسائی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ: ”ایک عورت جس کا نام ”غمیصاء“ یا ”رمیصاء“ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے اپنے شوہر کی شکایت کرنے کہ وہ جماع پر قادر نہیں ہے، تو اس کے شوہر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یہ جھوٹ بولتی ہے۔ دراصل یہ اپنے پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «ليس ذالك لها حتى تذوق عسيلته» “ [الدر المنثور: 284/1] گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں واقعات الگ الگ ہیں جن کا ذکر مختلف کتب احادیث و تفاسیر میں کیا گیا ہے۔ «والله اعلم» عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 378