You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، وَأَبُو عَاصِمٍ الْحَنَفِيُّ، وَاللَّفْظُ لِقُتَيْبَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ هَذَا قَدْ غَلَبَنِي عَلَى أَرْضٍ لِي كَانَتْ لِأَبِي، فَقَالَ الْكِنْدِيُّ: هِيَ أَرْضِي فِي يَدِي أَزْرَعُهَا لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَضْرَمِيِّ: «أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟» قَالَ: لَا، قَالَ: «فَلَكَ يَمِينُهُ»، قَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَى مَا حَلَفَ عَلَيْهِ، وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْءٍ، فَقَالَ: «لَيْسَ لَكَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِكَ»، فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَدْبَرَ: «أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَى مَالِهِ لِيَأْكُلَهُ ظُلْمًا، لَيَلْقَيَنَّ اللهَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ»
It is narrated on the authority of Wa'il that there came a person from Hadramaut and another one from Kinda to the Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ). One who had come from Hadramaut said: Messenger of Allah, only this man has appropriated my land which belonged to my father. The one who had came from Kinda contended. This is my land and is in my possession: I cultivate it. There is no right for him in it. The Messenger of Allah said to the Hadramite: Have you any evidence (to support you)? He replied in the negative. He (the Messenger of Allah) said: Then your case is to be decided on his oath. He (the Hadramite) said: Messenger of Allah, he is a liar and cares not what he swears and has no regard for anything. Upon this he (the Messenger of Allah) remarked: For you then there is no other help to it. He (the man from Kinda) set out to take an oath. When he turned his back the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) observed: If he took an oath on his property with a view to usurping it, he would certainly meet his Lord in a state that He would turn away from him.
سماک نے علقمہ بن وائل سے ، انہوں نے اپنے والد( حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ) سے روایت کی ، انہوں نے کہا : ایک آدمی حضر موت سے اور ایک کندہ سے نبی ﷺ کے پاس آیا ۔حضرمی (حضر موت کے باشندے ) نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ میری زمین پر قبضہ کیے بیٹھا ہے جومیرے باپ کی تھی ۔ اور کندی نے کہا : یہ میری زمین ہے ، میرے قبضے میں ہے ، میں اسے کاشت کرتا ہوں ، اس کا اس (زمین) میں کوئی حق نہیں ۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے حضرمی سے کہا : ’’کیا تمہاری کوئی دلیل (گواہی وغیرہ ) ہے ؟ ‘‘ اس نے کہا : نہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’ پھر تمہارے لیے اس کی قسم ہے ۔ ‘‘اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! بلاشبہ یہ آدمی بدکردار ہے ، اسے کوئی پرواہ نہیں کہ کس چیز پر قسم کھاتا ہے او ریہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا ۔ آپ نے فرمایا:’’تمہیں اس سے اس (قسم ) کے سوا کچھ نہیں مل سکتا۔‘‘ وہ قسم کھانے چلا اور جب اس نے پیٹھ پھیری تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بات یہ ہے کہ اگر اس نے ظلم اور زیادتی سے اس شخص کا مال کھانے کے لیے قسم کھائی تو بلاشبہ یہ شخص اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ نے اس سے اپنا رخ پھیر لیا ہو گا۔‘‘
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3245 ´جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کر لینا کیسا ہے؟` وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضر موت کا ایک شخص اور کندہ کا ایک شخص دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، حضرمی نے کہا: اللہ کے رسول! اس شخص نے میرے والد کی ایک زمین مجھ سے چھین لی ہے، کندی نے کہا: واہ یہ میری زمین ہے، میرے قبضے میں ہے میں خود اس میں کھیتی کرتا ہوں اس میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو تمہارے لیے اس کی جانب سے قسم ہے“ (جیسی وہ قسم کھا لے اسی کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3245] فوائد ومسائل: 1۔ کسی مقدمہ کے طرفین جس میں کسی صالح کے متعلق گمان ہو کہ سچ کہنا ہوگا۔ اورکسی فاسق کے متعلق یہ وہم ہو کہ یہ جھوٹا ہوگا۔ قاضی کے رو برو برابر ہوتے ہیں۔ ان کا فیصلہ شرعی اصولوں کے تحت ہی ہوگا۔ کہ مدعی گواہ پیش کرے۔ یا مدعا علیہ قسم کھائے۔ (خطابی)2۔ کسی تنازع (جھگڑے) میں طرفین کا ایک دوسرے کو جھوٹ خیانت یا ظلم وغیرہ سے مہتم کرنا ایسی باتیں ہوتی ہیں۔ کہ ان کے متعلق کوئی دعویٰ قبول نہیں کیا جاسکتا۔ (خطابی)3۔ مدعا علیہ کسی بھی دین وملت سے تعلق رکھتا ہو اس سے قسم لی جائے گی جو تسلیم ہوگی۔ 4۔ جھوٹی قسم کا عتاب انتہائی شدید ہے۔ سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3245