You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: هَاتِ مِنْ هَنَاتِكَ، «أَلَمْ يَكُنِ الطَّلَاقُ الثَّلَاثُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ وَاحِدَةً»؟ فَقَالَ: «قَدْ كَانَ ذَلِكَ، فَلَمَّا كَانَ فِي عَهْدِ عُمَرَ تَتَايَعَ النَّاسُ فِي الطَّلَاقِ، فَأَجَازَهُ عَلَيْهِمْ
Abu al-Sahba' said to Ibn 'Abbas: Enlighten us with your information whether the three divorces (pronounced at one and the same time) were not treated as one during the lifetime of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and Abu Bakr. He said: It was in fact so, but when during the caliphate of 'Umar (Allah be pleased with him) people began to pronounce divorce frequently, he allowed them to do so (to treat pronouncements of three divorces in a single breath as one).
ابراہیم بن میسرہ نے طاوس سے روایت کی کہ ابوصبہاء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کی: آپ اپنے نوادر (جن سے اکثر لوگ بے خبر ہیں) فتووں میں سے کوئی چیز عنایت کریں۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں تین طلاقیں ایک نہیں تھیں؟ انہوں نے جواب دیا: یقینا ایسے ہی تھا، اس کے بعد جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو لوگوں نے پے در پے (غلط طریقے سے ایک ساتھ تین) طلاقیں دینا شروع کر دیں۔ تو انہوں نے اس بات کو ان پر لاگو کر دیا
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2199 ´تین طلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی نہ رہنے کا بیان۔` طاؤس سے روایت ہے کہ ایک صاحب جنہیں ابوصہبا کہا جاتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کثرت سے سوال کرتے تھے انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے نیز عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں اسے ایک طلاق مانا جاتا تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں؟ جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے ہی تین طلاق دے دیتا تھا، تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں نیز عمر رضی الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2199] فوائد ومسائل: اس روایت میں (قبل ان يدخل بها) قبل ازمباشرت کا اضافہ منکر ہے۔ تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے (سلسلہ الاحادیث الضعیفۃ ج؛11343) صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ انتہائی صریح اور صاف ہیں (كان الطلاق علي عهد رسول الله ﷺوابي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة فقال عمر بن خطاب:ان الناس قداستعجلو في امر قد كانت لهم فيه اناة فلوا مضيناه عليهم فامضاه عليهم) (صحيح مسلم الطلاق حديث:١٤٧٤) رسول الله ﷺ کے زمانے میں عہد ابی بکر رضی اللہ عنہ اور خلافت عمر کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیںصایک ہی ہوا کرتی تھی تو عمر بن خطاب نے کہا:لوگ اس معاملہ (طلاق) میں جس میں انہیں مہلت حاصل تھی جلدی کرنے لگے ہیں۔ اگر ہم (ان کی تین طلاقوں کو تین طلاقیں ہی) نافذ کردیں (تو بہتر رہے) چنانچہ انہوں نے اس کو نافذ کردیا۔ علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں: اس حدیث میں مدخولہ اور غیر مدخولہ کی کوئی قید نہیں۔ یہ نص ناقابل انکار ہے انتہائی محکم اور ثابت ہے منسوخ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہﷺ کے بعد خلافت صدیق رضی اللہ عنہ کےبعد خلافت صدیق رضی اللہ عنہ اور اوائل دور عمر رضی اللہ عنہ میں اسی عمل ہوتا رہا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت اس کے بالمقابل کسی نص سے نہیں بلکہ اپنے اجتہاد سے کی تھی اور یہی وجہ تھی کہ قبل از نفاذ انہیں تردد واضطراب رہا تھا۔ اور مصر اور شام وغیرہ میں جب اس حکم کو قانون کا حصہ بنایا گیا ہے تو اتباع سنت اور احیائے سنت کی غرض سے نہیں بلکہ بربنائے مصلحت اور ابن تیمیہ کی تقلید میں ایسا کیا گیا ہےتو اتباع سنت اور احیائے سنت کی غرض سے نہیں بلکہ بربنائے مصلحت اور ابن تیمیہ کی تقلید میں ایسا کیا گیاہے۔ کاش کہ یہ لوگ اپنی عبادات ومعاملات میں سنت کی اتباع کو پیش نظر رکھیں۔ (ملحوظہ) مترجم عرض کرتا ہے برصغیر میں بھی یہی صورت حال ہے کہ لوگ اپنی ذاتی مصالح کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں نہ کہ اتباع سنت کی غرض سے۔ فإلی الله المشتكی سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2199