You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ، فَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ دَارَ عَلَى نِسَائِهِ، فَيَدْنُو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَاحْتَبَسَ عِنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ، فَقِيلَ لِي: أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةً مِنْ عَسَلٍ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ شَرْبَةً، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ، وَقُلْتُ: إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ، فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ، فَقُولِي لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: «لَا»، فَقُولِي لَهُ: مَا هَذِهِ الرِّيحُ؟ وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ يُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: «سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ»، فَقُولِي لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، وَسَأَقُولُ ذَلِكِ لَهُ، وَقُولِيهِ أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِئَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي، وَإِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَكَلْتَ مَغَافِيرَ؟ قَالَ: «لَا»، قَالَتْ: فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ؟ قَالَ: «سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ»، قَالَتْ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيَّ، قُلْتُ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ، فَقَالَتْ بِمِثْلِ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَا أَسْقِيكَ مِنْهُ؟ قَالَ: «لَا حَاجَةَ لِي بِهِ»، قَالَتْ: تَقُولُ سَوْدَةُ: سُبْحَانَ اللهِ، وَاللهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ، قَالَتْ: قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِيقَالَ أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، بِهَذَا سَوَاءً.
Ibn Abbas (Allah be pleased with them) reported about (declaring of one's woman) unlawful as an oath which must be atoned, and Ibn 'Abbas said: Verily, there is in the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) a model pattern for you.
ابواسامہ نے ہمیں ہشام سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ) سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیز اور شہد کو پسند فرماتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے تو اپنی تمام ازواج کے ہاں چکر لگاتے اور ان کے قریب ہوتے، (ایسا ہوا کہ) آپ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے تو ان کے ہاں آپ اس سے زیادہ (دیر کے لیے) رکے جتنا آپ (کسی بیوی کے پاس) رکا کرتے تھے۔ ان (حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا) کو ان کے خاندان کی کسی عورت نے شہد کا (بھرا ہوا) ایک برتن ہدیہ کیا تھا تو انہوں نے اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہد پلایا۔ میں نے (دل میں) کہا: اللہ کی قسم! ہم آپ (کو زیادہ دیر قیام سے روکنے) کے لیے ضرور کوئی حیلہ کریں گی، چنانچہ میں نے اس بات کا ذکر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کیا، اور کہا: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے ہاں تشریف لائیں گے تو تمہارے قریب ہوں گے، (اس وقت) تم ان سے کہنا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟ وہ تمہیں جواب دیں گے، نہیں! تو تم ان سے کہنا: یہ بو کیسی ہے؟ ۔۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات انتیائی گراں گزرتی تھی کہ آپ سے بو محسوس کی جائے ۔۔ اس پر وہ تمہیں جواب دیں گے: مجھے حفصہ نے شہد پلایا تھا، تو تم ان سے کہنا (پھر) اس کی مکھی نے عرفط (بوٹی) کا رس چوسا ہو گا۔میں بھی آپ سے یہی بات کہوں گی اور صفیہ تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی کہنا! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے، (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! آپ ابھی دروازے پر ہی تھے کہ میں تمہاری ملامت کے ر سے آپ کو بلند آواز سے وہبات کہنے ہی لگی تھی جو تم نے مجھ سے کہی تھی، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریب ہوئے تو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے مغافیر کھائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ انہوں نے کہا: تو یہ بو کیسی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حفصہ نے شہد پلایا تھا۔ انہوں نے کہا: پھر اس کی مکھی نے عرفط کا رس چوسا ہو گا۔ اس کے بعد جب آپ میرے ہاں تشریف لائے، تو میں نے بھی آپ سے یہی بات کہی، پھر آپ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے، تو انہوں نے بھی یہی بات کہی، اس کے بعد آپ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں (دوبارہ) تشریف لائے تو انہوں نے عرض کی: کیا آپ کو شہد پیش نہ کروں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، مجھے اس کی ضرورت نہیں۔(عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: سودہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں، سبحان اللہ! اللہ کی قسم! ہم نے آپ کو اس سے محروم کر دیا ہے۔ تو میں نے ان سے کہا: خاموش رہیں۔ابواسحاق ابراہیم نے کہا: ہمیں حسن بن بشر بن قاسم نے حدیث بیان کی، (کہا: ) ہمیں ابواسامہ نے بالکل اسی طرح حدیث بیان کی
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5599 ´ باذق (انگور کے شیرہ کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب) کے بارے میں` «. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ، وَالْعَسَلَ . . .» ”. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلوا اور شہد کو دوست رکھتے تھے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَشْرِبَةِ: 5599] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5599 کا باب: «بَابُ الْبَاذَقِ، وَمَنْ نَهَى عَنْ كُلِّ مُسْكِرٍ مِنَ الأَشْرِبَةِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں «الباذق» “کا ذکر فرمایا ہے، جس کے معنی انگور کے شیرے کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب ہے، جبکہ تحت الباب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث نقل فرمائی ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کا باب سے مناسبت واضح ہے جبکہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا تعلق باب سے مشکل ہے کیونکہ باب میں «الباذق» کے الفاظ ہیں اور حدیث میں حلوا اور شہد کے۔ غور کرنے سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو اجاگر ہوتا ہے، وہ اس جہت سے کہ انگور کا شیرہ جب اتنا پکایا جائے کہ وہ حلوا ہو جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حلوہ کو پسند فرمایا کرتے تھے لیکن اس میں اس بات کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ اس میں مطلق نشہ نہ ہو۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «ووجه إيراده فى هذا الباب أن الذى يحل من المطبوخ هو ما كان فى معنى الحلواء، والذي يجوز شربه من عصير العنب بغير طبخ هو ما كان فى معنى العسل، فانهم كانوا يمزجونه بالماء ويشربونه من ساعته. والله اعلم» [فتح الباري لابن حجر: 57/11] ”امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پکانے سے وہی حلال ہو گا جو حلوہ کے معنی میں ہو اور وہ عصیر عنب سے جس کا شرب بغیر پکانے کے حلال ہے وہ شہد کے معنی میں ہے، کیونکہ وہ اس سے پانی ملا کر اسی وقت (یعنی تازہ تازہ) پی لیا کرتے تھے۔“ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس طرح ہے کہ عصیر المطبوخ جبکہ اس میں نشہ نہ ہو، وہ حلال ہے۔“ [ارشاد الساري: 500/9] یعنی جس طرح حلوہ شہد میں ڈال کر پکایا جاتا ہے پانی کے ساتھ ملا کر جو کہ بڑا لذید اور پاکیزہ ہوتا ہے، بعین اسی طرح اگر انگور کا شیرہ پکایا جائے اور وہ حلوہ بن جائے (شراب کی صفات، اس میں نہ پائی جائیں جیسا کہ نشہ وغیرہ) تو وہ حلوہ حلال ہو گا، یعنی سکر بننے سے قبل اس کو حلوہ بنا کر کھانا درست ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں مناسبت ہوگی۔ «والله اعلم» عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 140