You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ رُمْحٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَيُّمَا امْرِئٍ أَبَّرَ نَخْلًا، ثُمَّ بَاعَ أَصْلَهَا، فَلِلَّذِي أَبَّرَ ثَمَرُ النَّخْلِ، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ
Ibn Umar (Allah be pleased with them) reported Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: Whosoever grafts the tree and then sells its roots, its fruit will belong to one who grafts it except when provision is laid down by the buyer.
لیث نے ہمیں نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کھجور کی تابیر (نر کھجور کا بور ڈال کر اس کی پرداخت) کی پھر اس کے درخت کو بیچ دیا، تو کھجور کا پھل اسی کا ہے جس نے تابیر کی، الا یہ کہ خریدنے والا شرط طے کر لے
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 483 ´جانوروں سے حسن سلوک کی فضیلت` «. . . 234- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من باع نخلا قد أبرت فثمرها للبائع إلا أن يشترطه المبتاع.“ . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھجور کے وہ درخت بیچے جن کی پیوندکاری کی گئی ہو تو اس کے پھل کا حقدار بیچنے والا ہے الا یہ کہ خریدنے والا شرط طے کر لے کہ پھل میرا ہو گا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 483] تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2204، ومسلم 77/1543، من حديث مالك به] تفقہ: ➊ عام دلیل اپنے عموم پر جاری رہتی ہے الا یہ کہ کوئی خاص دلیل اس کی تخصیص کر دے۔ ➋ لین دین اور دیگر امور میں مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا اعتبار ہوگا الا یہ کہ یہ شرائط واضح طور پر کتاب و سنت کے خلاف ہوں تو رد کردی جائیں گی۔ ➌ درختوں کی پیوند کاری جائز ہے۔ ➍ عبادات ہوں یا معاملات اسلام ہر سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ ➎ معاملات میں جھگڑے سے بچنے کے لئے وضاحت اور صراحت مستحب ہے۔ موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 234