You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بُكَيْرٍ النَّاقِدُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ يَعُودَانِي مَاشِيَيْنِ، فَأُغْمِيَ عَلَيَّ، فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ صَبَّ عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهِ، فَأَفَقْتُ، قُلْتُ: " يَا رَسُولَ اللهِ، كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي؟ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا، حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ: {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ
Jabir b. 'Abdullah (Allah be pleased with them) reported: I fell sick and there came to me on foot Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and Abu Bakr for inquiring after my health. I fainted. He (the Holy Prophet) performed ablution and then sprinkled over me the water of his ablution. I felt some relief and said: Allah's Messenger, how should I decide about my property? He said nothing to me in response until this verse pertaining to the law of inheritance was revealed: They ask you for a decision; say: Allah gives you a decision concerning the person who has neither parents nor children (iv. 177).
سفیان بن عیینہ نے ہمیں محمد بن منکدر سے حدیث بیان کی: انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کرنے کے لیے پیدل چل کر تشریف لائے، مجھ پر غشی ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر اپنے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا تو مجھے افاقہ ہو گیا، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیسے فیصلہ کروں؟ (اس کو ایسے ہی چھوڑ جاؤں یا وصیت کروں، وصیت کروں تو کتنے حصے میں؟ اس وقت حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد زندہ تھے نہ اور کوئی بیٹا تھا۔) آپ نے مجھے جواب نہ دیا حتی کہ وراثت کی آیت نازل ہوئی: وہ آپ سے فتویٰ مانتے ہیں، کہہ دیجئے: اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7309 ´ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مسئلہ رائے یا قیاس سے نہیں بتلایا` «. . . جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ:" مَرِضْتُ، فَجَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا مَاشِيَانِ، فَأَتَانِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَبَّ وَضُوءَهُ عَلَيَّ، فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي؟، قَالَ: فَمَا أَجَابَنِي بِشَيْءٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ . . .» ”. . . جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو مجھ پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور بعض اوقات سفیان نے یہ الفاظ بیان کئے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کے بارے میں کس طرح فیصلہ کروں، میں اپنے مال کا کیا کروں؟ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7309] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7309 کا باب: «بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ مِمَّا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فَيَقُولُ: «لاَ أَدْرِي»:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے یہ باب کئی فوائد پر مشتمل ہے، اور آپ رحمہ اللہ نے باب کے ذریعے جو واضح کرنا چاہا وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب تک کسی مسئلے پر وحی کا نزول نہ ہوتا تو رائے نہ دیتے اور نہ ہی قیاس کرتے، اس کی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیتے کہ «لا أدري» کہ ”میں نہیں جانتا۔“ تحت الباب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل فرمائی، جو تعلیقاً ذکر فرمائی ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت سوال کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے بظاہر باب سے مناسبت ظاہر ہے، اس کے بعد جو حدیث سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے اس کا باب سے مطابقت ہونا معلوم نہیں ہوتا، کیوں کہ باب میں «لا أدري» کا ذکر ہے جبکہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ وارد نہیں ہیں، اسی وجہ سے علامہ کرمانی رحمہ اللہ یہ اعتراض کر بیٹھے کہ: «وقال الكرماني فى قوله فى الترجمة لا أدري حزازة إذ ليس فى الحديث ما يدل عليه.» [فتح الباري لابن حجر: 248/14] ”کرمانی نے کہا کہ ترجمۃ الباب میں ان کے «لا أدري» لکھنے میں حزازت یعنی بےاعتدالی ہے کیوں کہ حدیث میں اس (الفاظ) پر کوئی چیز دلالت نہیں کرتی۔“ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے راقم ہیں: «والذى يظهر أنه أشار فى الترجمة إلى ما ورد فى ذالك ولكنه لم يثبت عنده من شيئي على شرطه.» ”ظاہر یہ ہے کہ ترجمۃ الباب میں اس بابت وارد کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اپنی شرط پر نہ ہونے کی وجہ سے اس میں کچھ نقل نہیں کیا۔“ کتب احادیث میں ایسی احادیث موجود ہیں جن میں یہ الفاظ «لا أدري» کے وارد ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان احادیث کو نقل فرماتے ہیں، مثلاً آپ لکھتے ہیں: ”اس بابت متعدد روایات موجود ہیں (مثلاً) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا: «أى البقاع خير» یعنی کون سا علاقہ بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا أدري» پھر حضرت جبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوال ان کے آگے رکھا تو انہوں نے بھی یہی کہا: «لا أدري»، تو فرمایا: «سل ربك فانتقض جبريل انتقاضة» ۔“ [فتح الباري لابن حجر: 249/14] لہٰذا یہ بات واضح ہوئی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے «لا أدري» کے الفاظ تحت الباب نقل نہیں فرمائے بلکہ اس قسم کے الفاظ دیگر احادیث میں وارد ہیں، مگر آپ نے صرف اشارہ کر دیا باب کے ذریعے کیوں کہ وہ احادیث آپ کی شرط پر نہ تھیں۔ اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مطلق اجتہاد اور قیاس کی نفی نہیں فرما رہے بلکہ آپ رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پیچیدہ سوالات پر خاموش رہتے جس کے بارے میں شریعت میں اصول نہ تھے، اگر کسی سوال کے بارے میں شریعت میں پہلے سے ہی اصول موجود ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوال کو اس اصول پر قیاس فرماتے ( «كما لا يخفى على أهل العلم») چنانچہ اس اصولی گفتگو کو کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مہلب رحمہ اللہ کا قول نقل فرمایا ہے، آپ لکھتے ہیں: «وقد نقل ابن بطال عن المهلب ما معناه إنما سكت النبى صلى الله عليه وسلم فى أشياء معضلة ليست لها أصول فى الشريعة، فلا بد فيها من اطلاع الوحي و إلا فقد شرع صلى الله عليه وسلم لأمته القياس، و أعلمهم كيفية الاستنباط فيما لا نص فيه، حيث قال للنبي سألته هل تحج عن أمها: فالله أحق بالقضاء، و هذا هو القياس فى لغة العرب.» [فتح الباري لابن حجر: 248/14] ”ابن بطال نے مہلب رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دراصل ان پیچیدہ اشیاء کی بابت سوال ہونے پر خاموشی اختیار فرماتے جن کے لیے شریعت میں اصول نہ تھے تو ان میں وحی کا انتظار ضروری تھا، وگرنہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے قیاس مشروع کیا ہے اور انہیں کیفیت استنباط کی تعلیم دی ہے ان امور میں جن میں نص نہ ہو، مثلاً اس خاتون سے فرمایا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ اپنی والدہ کی طرف سے حج بدل کر سکتی ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: ( «فالله أحق بالقضاء») یہی لغت عرب میں قیاس ہے۔“ علامہ مہلب رحمہ اللہ کی اس تفصیلی گفتگو سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک خاموش رہتے جب تک وحی نازل نہ ہوتی، اور یہ ان پیچیدہ سوالات پر مبنی ہوتا جس کے بارے میں شریعت نے کوئی حکم نہیں اتارا ہوتا، اگر کسی مسئلے پر شریعت نے کوئی حکم نازل کر دیا ہوتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر قیاس فرماتے تھے، اس کی امثلہ کتب احادیث میں کثیر ہیں۔ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 300