You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، خَطَبَ يَوْمَ جُمُعَةٍ، فَذَكَرَ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي لَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا أَهَمَّ عِنْدِي مِنَ الْكَلَالَةِ، مَا رَاجَعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مَا رَاجَعْتُهُ فِي الْكَلَالَةِ، وَمَا أَغْلَظَ لِي فِي شَيْءٍ مَا أَغْلَظَ لِي فِيهِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: «يَا عُمَرُ، أَلَا تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ، وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ أَقْضِ فِيهَا بِقَضِيَّةٍ يَقْضِي بِهَا مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَمَنْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ»،
Abu Talha reported: 'Umar b. al-Khattab (Allah be pleased with him) delivered a sermon on Friday and made a mention of Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and he also made a mention of Abu Bakr (Allah be pleased with him) and then said: I do not leave behind me any problem more difficult than that of Kalala. I did not refer to Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) more repeatedly than in case of the problem of Kalala, and he (the Holy Prophet) never showed more annoyance to me than in regard to this problem, so much so that he struck my chest with his fingers and said: 'Umar, does the verse revealed in summer season, at the end of Sura al-Nisa' not suffice you? Hadrat 'Umar (then) said: If I live I would give such verdict about (Kalala) that everyone would be able to decide whether he reads the Qur'an or he does not.
ہشام نے ہمیں حدیث بیان کی: ہمیں قتادہ نے سالم بن ابی جعد سے حدیث بیان کی، انہوں نے معدان بن ابی طلحہ سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن خطبہ دیا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا، پھر کہا: میں اپنے بعد کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ رہا جو میرے ہاں کلالہ سے زیادہ اہم ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں اتنی مراجعت نہیں کی جتنی کلالہ کے بارے میں کی، اور آپ نے بھی مجھ سے کسی چیز کے بارے میں اتنی شدت اختیار نہیں فرمائی جتنی کلالہ کے بارے میں فرمائی حتی کہ آپ نے اپنی انگلی میرے سینے میں چبھوئی اور فرمایا: اے عمر! تمہیں موسم گرما (میں نازل ہونے) والی آیت کافی نہیں جو سورہ نساء کے آخر میں ہے؟ (جس سے مسئلہ واضح ہو گیا ہے) اور میں (عمر) اگر زندہ رہا تو اس کے بارے میں ایسا واضح فیصلہ کروں گا جس (کو دیکھتے ہوئے) ایسا شخص (بھی) فیصلہ کر سکے گا جو قرآن پڑھتا (اور سمجھتا) ہے اور وہ بھی جو قرآن نہیں پڑھتا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2726 ´کلالہ کا بیان۔` معدان بن ابی طلحہ یعمری سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، یا خطبہ دیا، تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے بعد کلالہ (ایسا مرنے والا جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا) کے معاملے سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں چھوڑ رہا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر سختی سے جواب دیا کہ ویسی سختی آپ نے مجھ سے کبھی نہیں کی یہاں تک کہ اپنی انگلی سے میری پسلی یا سینہ میں ٹھوکا مارا پھر فرمایا: ”اے عمر! تمہارے لیے آیت صیف «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» ”آپ سے فتویٰ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2726] اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کلالہ سے مراد وہ میت ہے جس کےماں باپ بھی نہ ہوں اور اولاد بھی نہ ہو۔ اس کی وراثت اس کے بھائی بہنوں میں تقسیم ہوگی۔ (2) موسم گرما میں نازل ہونے والی آیت سے مراد سورۂ نساء کی آیت 176 ہے۔ اس میں یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر مرنے والے کلالہ مرد کی ایک حقیقی (ماں اور باپ دونوں میں شریک) بہن ہو، یا ایک علاتی (باپ شریک) بہن ہوتو اسے اپنے بھائی کا نصف ترکہ ملے گا، البتہ مرنے والی کلالہ عورت کا ایک بھائی ہو تو اسے پورے کا پورا ترکہ مل جائے گا۔ (3) اسی آیت میں ہے کہ اگر کلالہ کی دو حقیقی یا علاتی بہنیں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے گا۔ (4) اگر کلالہ میت کے وارث حقیقی یا علاتی بھائی بھی ہوں اور بہنیں بھی تو ترکہ ان میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ ہر بھائی کو بہن سے دگنا ملے گا۔ (5) اخیافی (ماں شریک) بھائی یا بہن کا حکم یہ ہے کہ اگر میت کا ایک ہی اخیافی بھائی یا بہن ہو تو اسے ترکے کا چھٹا حصہ دیا جائے گا۔ اوراگر دو بھائی یا دو بہنیں یا ایک بھائی اور ایک بہن یا دو سے زیادہ بھائی بہنیں ہوں تو ترکے کا ایک تہائی حصہ ان سب میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔ اس صورت میں بھائی کا حصہ بہن سے دگنا نہیں ہوگا۔ (النساء، آیت: 12) سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2726