You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ، وَاللَّفْظُ لِسَعِيدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى، فَقُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، فَقَالَ: «ائْتُونِي أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدِي»، فَتَنَازَعُوا [ص:1258] وَمَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ، وَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ، قَالَ: " دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ، أُوصِيكُمْ بِثَلَاثٍ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ "، قَالَ: وَسَكَتَ، عَنِ الثَّالِثَةِ، أَوْ قَالَهَا فَأُنْسِيتُهَا، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ إِبْرَاهِيمُ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، بِهَذَا الْحَدِيثِ
Sa'id b. Jubair reported that Ibn 'Abbas said: Thursday, (and then said): What is this Thursday? He then wept so much that his tears moistened the pebbles. I said: Ibn 'Abbas, what is (significant) about Thursday? He (Ibn 'Abbas) said: The illness of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) took a serious turn (on this day), and he said: Come to me, so that I should write for you a document that you may not go astray after me. They (the Companions around him) disputed, and it is not meet to dispute in the presence of the Apostle. They said: How is lie (Allah's Apostle)? Has he lost his consciousness? Try to learn from him (this point). He (the Holy Prophet) said: Leave me. I am better in the state (than the one in which you are engaged). I make a will about three things: Turn out the polytheists from the territory of Arabia; show hospitality to the (foreign) delegations as I used to show them hospitality. He (the narrator) said: He (Ibn Abbas) kept silent on the third point, or he (the narrator) said: But I forgot that. This hadith was mentioned through another chain.
ہمیں سعید بن منصور،قتیبہ بن سعید، ابوبکر بن ابی شیبہ اور عمرو ناقد نے حدیث بیان کی ۔۔ الفاظ سعید کے ہیں ۔۔ سب نے کہا: ہمیں سفیان نے سلیمان احول سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید بن جبیر سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: جمعرات کا دن، اور جمعرات کا دن کیسا تھا! پھر وہ رونے لگے یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں نے سنگریزوں کو تر کر دیا۔ میں نے کہا: ابوعباس! جمعرات کا دن کیا تھا؟ انہون نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض شدت اختیار کر گیا تو آپ نے فرمایا: میرے پاس (لکھنے کا سامان) لاؤ، میں تمہیں ایک کتاب (تحریر) لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو۔ تو لوگ جھگڑ پڑے، اور کسی بھی نبی کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں۔ انہوں نے کہا: آپ کا کیا حال ہے؟ کیا آپ نے بیماری کے زیر اثر گفتگو کی ہے؟ آپ ہی سے اس کا مفہوم پوچھو! آپ نے فرمایا: مجھے چھوڑ دو، میں جس حالت میں ہوں وہ بہتر ہے۔ میں تمہیں تین چیزوں کی وصیت کرتا ہوں؛ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا اور آنے والے وفود کو اسی طرح عطیے دینا جس طرح میں انہیں دیا کرتا تھا۔ (سلیمان احول نے) کہا: وہ (سعید بن جبیر) تیسری بات کہنے سے خاموش ہو گئے یا انہوں نے کہی اور میں اسے بھول گیا۔ابواسحاق ابراہیم نے کہا: ہمیں حسن بن بشر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے یہی حدیث بیان کی
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 114 ´ (دینی) علم کو قلم بند کرنے کے جواز میں ` «. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ، قَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَلَبَهُ الْوَجَعُ وَعِنْدَنَا كِتَابُ اللَّهِ حَسْبُنَا، فَاخْتَلَفُوا وَكَثُرَ اللَّغَطُ، قَالَ: قُومُوا عَنِّي وَلَا يَنْبَغِي عِنْدِي التَّنَازُعُ، فَخَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كِتَابِهِ " . . . .» ”. . . ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ كِتَابَةِ الْعِلْمِ:: 114] تشریح: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ترین تکلیف دیکھ کر یہ رائے دی تھی کہ ایسی تکلیف کے وقت آپ تحریر کی تکلیف کیوں فرماتے ہیں۔ ہماری ہدایت کے لیے قرآن مجید کافی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رائے پر سکوت فرمایا اور اس واقعہ کے بعد چار روز آپ زندہ رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس خیال کا اظہار نہیں فرمایا۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وقد كان عمر افقه من ابن عباس حيث اكتفي بالقرآن على انه يحتمل ان يكون صلى الله عليه وسلم كان ظهرله حين هم بالكتاب انه مصلحة ثم ظهر له اواوحي اليه بعد ان المصلحة فى تركه ولو كان واجبا لم يتركه عليه الصلوٰة والسلام لاختلافهم لانه لم يترك التكليف بمخالفة من خالف وقد عاش بعدذلك اياما ولم يعاود امرهم بذلك .» خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بہت زیادہ سمجھ دار تھے، انہوں نے قرآن کو کافی جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً یہ ارادہ ظاہر فرمایا تھا مگر بعد میں اس کا چھوڑنا بہتر معلوم ہوا۔ اگر یہ حکم واجب ہوتا تو آپ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے اسے ترک نہ فرماتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے بعد کئی روز زندہ رہے مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اعادہ نہیں فرمایا۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث سات طریقوں سے مذکور ہوئی ہے۔ صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 114