You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ ضُرَيْبِ بْنِ نُقَيْرٍ الْقَيْسِيِّ، عَنْ زَهْدَمٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ: «مَا عِنْدِي مَا أَحْمِلُكُمْ، وَاللهِ مَا أَحْمِلُكُمْ»، ثُمَّ بَعَثَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثَةِ ذَوْدٍ بُقْعِ الذُّرَى، فَقُلْنَا: إِنَّا أَتَيْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَسْتَحْمِلُهُ، فَحَلَفَ أَنْ لَا يَحْمِلَنَا، فَأَتَيْنَاهُ فَأَخْبَرْنَاهُ، فَقَالَ: «إِنِّي لَا أَحْلِفُ عَلَى يَمِينٍ، أَرَى غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَتَيْتُ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ
Abu Musa al-Ash'ari reported: We came to Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) requesting him to provide us with riding camels. He (the Holy Prophet) said: There is nothing with me with which I should equip you. By Allah, I would not provide you with (riding camels). Then Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) sent to us three camels with spotted bumps. We said: We came to Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) asking him to equip us with riding animals. He took an oath that he could not equip us. We came to him and informed him. He said: By Allah, I do not take an oath, but when I find the other thing better than that, I do that which is better.
جریر نے ہمیں سلیمان تیمی سے خبر دی، انہوں نے ضرب بن نقیر قیسی سے، انہوں نے زہدم سے اور انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سواریاں حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے جس پر میں تمہیں سوار کروں، اللہ کی قسم! میں تمہیں سوار نہیں کروں گا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف سفید کوہان والے تین (جوڑے) اونٹ بھیجے تو ہم نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ سے سواریاں حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ نے ہمیں سواری نہ دینے کی قسم کھائی تھی، چنانچہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو (آپ کی قسم) کے بارے میں) خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کسی چیز پر قسم نہیں کھاتا، پھر اس کے علاوہ کسی دوسرے کام کو اس سے بہتر خیال کرتا ہوں تو وہی کرتا ہوں جو بہتر ہو
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2107 ´جس نے کسی بات پر قسم کھائی پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھا تو اس کے حکم کا بیان۔` ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اشعری قبیلہ کے چند لوگوں کے ہمراہ آپ سے سواری مانگنے کے لیے حاضر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں تم کو سواری نہیں دوں گا، اور میرے پاس سواری ہے بھی نہیں کہ تم کو دوں“، پھر ہم جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرے رہے، پھر آپ کے پاس زکاۃ کے اونٹ آ گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے سفید کوہان والے تین اونٹ دینے کا حکم دیا، جب ہم انہیں لے کر چلے تو ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2107] اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قسم کی تین قسمیں ہیں: (ا) لغو: جس میں قسم کا لفظ بولا جائے لیکن قسم کا ارادہ نہ ہو جیسے بعض لوگ عادت کے طور پر بلا ارادہ قسم کے لفظ بول دیتے ہیں۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں تاہم اس سے اجتناب بہتر ہے۔ (ب) غموس: یعنی جھوٹی قسم جو کسی کو دھوکا دینے کے لیے کھائی جائے۔ یہ کبیرہ گناہ ہے، اس پر توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاہم اس پر کفارہ واجب نہیں۔ (ج) معقدہ: جو مستقبل میں کسی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کلام میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادہ نیت سے کھائے۔ اس قسم کو توڑنے پر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ (دیکھیئے: تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف سورہ المائدہ 5: 89) ۔ (2) قسم کا کفارہ دس غریب آدمیوں کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس مہیا کرنا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ (سورۃ مائدۃ: 89) (3) ایک آدمی کو خوراک کے طور پر ایک مدغلہ (تقریبا چھ سو گرام) کافی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں روزے کی حالت میں ہم بستری کر لینے والے کو ساتھ مسکینوں میں تقسیم کرنے کے لیے پندرہ صاع کھجوریں دی تھیں۔ اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک خوراک اور لباس میں عرف کا اعتبار ہے یعنی جسے عام لوگ کہیں کہ اس نے کھانا کھلا دیا قرآن مجید سے یہی ارشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ﴾ (المائدۃ، 5: 89) ”اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو۔“ یعنی اس کی مقدار مقرر نہیں۔ اپنی استطاعت کے مطابق سادہ یا عمدہ کھانا یا لباس دینا چاہیے۔ (4) نیکی کا کام نہ کرنے یا گناہ کرنے کی قسم کھانا بھی ناجائز ہے۔ اس پر بھی کفارہ ادا کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَا تَجْعَلُوا اللَّـهَ عُرْضَةً لِّأَيْمَانِكُمْ أَن تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ﴾ (البقرۃ، 2: 224) ”اور اللہ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا (اس طرح) نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیز گاری اور لوگوں کے درمیان صلح کرانا چھوڑ بیٹھو۔“ (5) جو کام نہ کرنے کی قسم کھائی ہو کفارہ اسے انجام دینے سے پہلے بھی دیا جاسکتا ہے بعد میں بھی۔ سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2107