You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّهُ قَالَ: إِنِّي لَمِنَ النُّقَبَاءِ الَّذِينَ بَايَعُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: «بَايَعْنَاهُ عَلَى أَنْ لَا نُشْرِكَ بِاللهِ شَيْئًا، وَلَا نَزْنِيَ، وَلَا نَسْرِقَ، وَلَا نَقْتُلَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا نَنْتَهِبَ، وَلَا نَعْصِيَ، فَالْجَنَّةُ إِنْ فَعَلْنَا ذَلِكَ، فَإِنْ غَشِينَا مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا كَانَ قَضَاءُ ذَلِكَ إِلَى اللهِ»، وَقَالَ ابْنُ رُمْحٍ: كَانَ قَضَاؤُهُ إِلَى اللهِ
Ubida b. as-Samit repnrted: I was one of those headmen who swore allegiance to Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) that we will not associate anything with Allah, and will not commit adultery, and will not steal, and will not kill any soul which Allah has forbidden, but with justice nor plunder, nor disobey (Allah and His Apostle), then Paradise (will be the reward) in case we do these (acts) ; and if we commit any outrage (and that goes unpunished in the world), it is Allah Who would decide about it. Ibn Rumh said: Its judgment lies with Allah.
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح نے لیث سے، انہوں نے یزید بن ابی حبیب سے، انہوں نے ابوالخیر سے، انہوں نے (عبدالرحمان) صنابحی سے اور انہوں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: میں ان نقیبوں میں سے ہوں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ اور کہا: ہم نے اس بات پر آپ کے ساتھ بیعت کی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے، زنا نہ کریں گے، چوری نہ کریں گے، کسی زندہ (انسان) کو ناحق قتل نہ کریں گے جسے اللہ نے حرمت عطا کی ہے، ڈاکے نہ ڈالیں گے اور نافرمانی نہ کریں گے۔ اگر ہم نے اس پر عمل کیا تو جنت ہے اور اگر ہم نے ان میں سے کسی چیز کا ارتکاب کیا تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہو گا۔ ابن رمح نے اس کا فیصلہ کے بجائے اس شخص کا فیصلہ اللہ عزوجل کے سپرد ہو گا کہا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 18 ´بیعت اسلام` «. . . أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: " بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ، وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ، وَلَا تَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ، فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ "، فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِك . . .» ”. . . عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے اور لیلۃالعقبہ کے (بارہ) نقیبوں میں سے تھے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب آپ کے گرد صحابہ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی فرمایا کہ مجھ سے بیعت کرو اس بات پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے اور نہ عمداً کسی پر کوئی ناحق بہتان باندھو گے اور کسی بھی اچھی بات میں (اللہ کی) نافرمانی نہ کرو گے۔ جو کوئی تم میں (اس عہد کو) پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہے اور جو کوئی ان (بری باتوں) میں سے کسی کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں (اسلامی قانون کے تحت) سزا دے دی گئی تو یہ سزا اس کے (گناہوں کے) لیے بدلا ہو جائے گی اور جو کوئی ان میں سے کسی بات میں مبتلا ہو گیا اور اللہ نے اس کے (گناہ) کو چھپا لیا تو پھر اس کا (معاملہ) اللہ کے حوالہ ہے، اگر چاہے معاف کرے اور اگر چاہے سزا دیدے۔ (عبادہ کہتے ہیں کہ) پھر ہم سب نے ان (سب باتوں) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر لی . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 17] تشریح: اس حدیث کے راوی عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت خزرجی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مکہ آ کر مقام عقبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور اہل مدینہ کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بارہ آدمیوں کو اپنا نائب مقرر کیا تھا، یہ ان میں سے ایک ہیں جنگ بدر کے مجاہدین میں سے ہیں۔ 34 ہجری میں 72 سال کی عمر پا کر انتقال کیا اور رملہ میں دفن ہوئے۔ صحیح بخاری میں ان سے نو احادیث مروی ہیں۔ انصار کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مدینہ کے لوگوں نے جب اسلام کی اعانت کے لیے مکہ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تو اسی بنا پر ان کا نام انصار ہوا۔ انصار، ناصر کی جمع ہے اور ناصر مددگار کو کہتے ہیں۔ انصار عہد جاہلیت میں بنو قیلہ کے نام سے موسوم تھے۔ «قيله» اس ماں کو کہتے ہیں جو دو قبائل کی جامعہ ہو۔ جن سے اوس اور خزرج ہر دو قبائل مراد ہیں۔ ان ہی کے مجموعہ کو انصار کہا گیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی قانون کے تحت جب ایک مجرم کو اس کے جرم کی سزا مل جائے تو آخرت میں اس کے لیے یہ سزا کفارہ بن جاتی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح یہ ضروری نہیں کہ اللہ ہر گناہ کی سزا دے۔ اسی طرح اللہ پر کسی نیکی کا ثواب دینا بھی ضروری نہیں۔ اگر وہ گنہگار کو سزا دے تو یہ اس کا عین انصاف ہے اور گناہ معاف کر دے تو یہ اس کی عین رحمت ہے۔ نیکی پر اگر ثواب نہ دے تو یہ اس کی شان بے نیازی ہے اور ثواب عطا فرما دے تو یہ اس کا عین کرم ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب بغیر توبہ کئے مر جائے تو اللہ کی مرضی پر موقوف ہے، چاہے تو اس کے ایمان کی برکت سے بغیر سزا دئیے جنت میں داخل کرے اور چاہے سزا دے کر پھر جنت میں داخل کرے۔ مگر شرک اس سے مستثنیٰ ہے کیوں کہ اس کے بارے میں قانون الٰہی یہ ہے «ان الله لايغفران يشرك به الاية» جو شخص شرک پر انتقال کر جائے تو اللہ پاک اسے ہرگز ہرگز نہیں بخشے گا اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔ کسی مومن کا خون ناحق بھی نص قرآن سے یہی حکم رکھتا ہے۔ اور حقوق العباد کا معاملہ بھی ایسا ہے کہ جب تک وہ بندے ہی نہ معاف کر دیں، معافی نہیں ملے گی۔ چوتھی بات یہ معلوم ہوئی کہ کسی عام آدمی کے بارے میں قطعی جنتی یا قطعی دوزخی کہنا جائز نہیں۔ پانچویں بات معلوم ہوئی کہ اگر ایمان دل میں ہے تو محض گناہوں کے ارتکاب سے انسان کافر نہیں ہوتا۔ مگر ایمان قلبی کے لیے زبان سے اقرار کرنا اور عمل سے ثبوت ایمان دینا بھی ضروری ہے۔ اس حدیث میں ایمان، اخلاق، حقوق العباد کے وہ بیشتر مسائل آ گئے ہیں۔ جن کو دین و ایمان کی بنیاد کہا جا سکتا ہے۔ اس سے صاف واضح ہو گیا کہ نیکی و بدی یقیناً ایمان کی کمی و بیشی پر اثر انداز ہوتی ہیں اور جملہ اعمال صالحہ ایمان میں داخل ہیں۔ ان احادیث کی روایت سے حضرت امیرالمحدثین کا یہی مقصد ہے۔ پس جو لوگ ایمان میں کمی و بیشی کے قائل نہیں وہ یقینا خطا پر ہیں۔ اس حدیث میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر یا ہمیشہ کے لیے دوزخی بتلاتے ہیں۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہماری روایت کے مطابق یہاں لفظ باب بغیر ترجمہ کے ہے اور یہ ترجمہ سابق ہی سے متعلق ہے۔ «ووجه التعلق انه لما ذكرالانصار فى الحديث الاول اشارفي هذا الي ابتداءالسبب فى تلقيهم بالانصار لان اول ذلك كان ليلة العقبة لما توافقوا مع النبى صلى الله عليه وسلم عندعقبة مني فى الموسم كماسياتي شرح ذلك ان شاءالله تعالىٰ فى السيرة النبوية من هذا الكتاب» یعنی اس تعلق کی وجہ یہ ہے کہ حدیث اول میں انصار کا ذکر کیا گیا تھا یہاں یہ بتلایا گیا کہ یہ لقب ان کو کیونکر ملا۔ اس کی ابتداء اس وقت سے ہوئی جب کہ ان لوگوں نے عقبہ میں منیٰ کے قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت وامداد کے لیے پورے طور پر وعدہ کیا۔ لفظ «عصابه» کا اطلاق زیادہ سے زیادہ چالیس پر ہو سکتا ہے۔ یہ بیعت اسلام تھی جس میں آپ نے شرک باللہ سے توبہ کرنے کا عہد لیا۔ پھر دیگر اخلاقی برائیوں سے بچنے کا اور اولاد کو قتل نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ جب کہ عرب میں یہ برائیاں عام تھیں۔ بہتان سے بچنے کا بھی وعدہ لیا۔ یہ وہ جھوٹ ہے جس کی کوئی اصلیت نہ ہو۔ الفاظ «بين ايديكم وارجلكم» میں دل سے کنایہ ہے۔ یعنی دل نے ایک بے حقیقت بات گھڑ لی۔ آگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصولی بات پر عہد لیا کہ ہر نیک کام میں ہمیشہ اطاعت کرنی ہو گی۔ معروف ہر وہ چیز ہے جو شریعت کی نگاہ میں جانی ہوئی ہو۔ اس کی ضد منکر ہے۔ جو شریعت میں نگاہ نفرت سے دیکھی جائے۔ صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 18