You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ عَبَّادٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، مَوْلَى سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَتَسَيَّرْنَا لَيْلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرِ بْنِ الْأَكْوَعِ: أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ، وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا، فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ، يَقُولُ [ص:1428]: اللهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءً لَكَ مَا اقْتَفَيْنَا، وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا، وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا، وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟» قَالُوا: عَامِرٌ، قَالَ: «يَرْحَمُهُ اللهُ»، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَتْ يَا رَسُولَ اللهِ، لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، قَالَ: فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ، فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ اللهَ فَتَحَهَا عَلَيْكُمْ»، قَالَ: فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ مَسَاءَ الْيَوْمِ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ، أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا هَذِهِ النِّيرَانُ؟ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ؟» فَقَالُوا: عَلَى لَحْمٍ، قَالَ: «أَيُّ لَحْمٍ؟» قَالُوا: لَحْمُ حُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَهْرِيقُوهَا، وَاكْسِرُوهَا»، فَقَالَ رَجُلٌ: أَوْ يُهْرِيقُوهَا وَيَغْسِلُوهَا؟ فَقَالَ: «أَوْ ذَاكَ»، قَالَ: فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ فِيهِ قِصَرٌ، فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِيٍّ لِيَضْرِبَهُ، وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ، فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ، قَالَ: فَلَمَّا قَفَلُوا، قَالَ سَلَمَةُ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي: قَالَ: فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاكِتًا، قَالَ: «مَا لَكَ؟» قُلْتُ لَهُ: فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، قَالَ: «مَنْ قَالَهُ؟» قُلْتُ: فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَأُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: «كَذَبَ مَنْ قَالَهُ، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ» وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ، «إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ قَلَّ عَرَبِيٌّ مَشَى بِهَا مِثْلَهُ»، وَخَالَفَ قُتَيْبَةُ مُحَمَّدًا فِي الْحَدِيثِ فِي حَرْفَيْنِ، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّادٍ: وَأَلْقِ سَكِينَةً عَلَيْنَا
It has been narrated on the authority of Salama b. al-Akwa' who said: We marched upon Khaibar with the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ). We journeyed during the night. One of the people said to (my brother) 'Amir b. al-Akwa': Won't you recite to us some of your verses? Amir was a poet. So he began to chant his verses to urge the camels, reciting: O God, if Thou hadst not guided us We would have neither been guided rightly nor practised charity, Nor offered prayers. We wish to lay down our lives for Thee; so forgive Thou our lapses, And keep us steadfast when we encounter (our enemies). Bestow upon us peace and tranquillity. Behold, when with a cry they called upon us to help. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Who is this driver (of the camels)? They said: It is 'Amir. He said: God will show mercy to him. A man said: Martyrdom is reserved for him. Messenger of Allah, would that you had allowed us to benefit ourselves from his life. (The narrator says): We reached Khaibar and besieged them, and (we continued the siege) until extreme hunger afflicted us. Then the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Behold, God has conquered it for you. When it was evening of the day on which the city was conquered. the Muslims lit many fires. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: What are these fires? And what are they cooking? They said: They are cooking meat. He asked. Which meat? They said: That of domestic asses. He said: Let them throw it away and break the pots (in which it is being cooked). A man said: Or should they throw it away and wash the pots? He said: They may do that. When the people drew themselves up in battle array 'Amir caught hold of his sword that was rather short He drove a Jew before him to strike him with it. (As he struck him), his sword recoiled and struck his own knee, and 'Amir died of the wound. When the people returned (after the conquest of Kliaibar) and he (Salama) had caught hold of my hand, and said: The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) saw that I was silent (and dejected) ; he said: What's the matter with thee? I said to him: My father and my mother be thy ransom, people presume that 'Amir's sacrifice has been in vain. He asked: Who has said that? I said: So and so and Usaid b. Hudair al-Ansari. He said: Who has said that has lied. For him (for 'Amir) there is a double reward. (He indicated this by putting two of his fingers together.) He was a devotee of God and a warrior fighting for His cause. There will be hardly any Arab who can fight as bravely as he did. Qutaiba has differed in a few words.
قتیبہ بن سعید اور محمد بن عباد نے ۔۔ الفاظ ابن عباد کے ہیں ۔۔ ہمیں حدیث بیان کی، ان دونوں نے کہا: ہمیں حاتم بن اسماعیل نے سلمہ بن اکوع کے آزاد کردہ غلام یزید بن ابی عبید سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو ہم نے رات کے وقت سفر کیا، لوگوں میں سے ایک آدمی نے عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا تم ہمیں اپنے نادر جنگی اشعار سے نہیں سناؤ گے؟ اور عامر رضی اللہ عنہ شاعر آدمی تھے، وہ اتر کر لوگوں کے (اونٹوں) کے لیے حدی خوانی کرنے لگے، وہ کہہ رہے تھے:اے اللہ! اگر تو (فضل و کرم کرنے والا) نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے، ہم تیرے نام پر قربان، ہم نے جو گناہ کیے ان کو بخش دے اور اگر ہمارا مقابلہ ہو تو ہمارے قدم جما دے اور ہم پر ضرور بالضرور سکینت اور وقار نازل فرما۔ ہمیں جب بھی آواز دے کر بلایا گیا ہم آئے، ہمیں آواز دے کر ان (آواز دینے والے) لوگوں نے ہم پر اعتماد کیا (اور ہم اس پر پورے اترے۔)تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ (حدی خوانی کر کے) اونٹوں کو ہانکنے والا کون ہے؟ لوگوں نے کہا: عامر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اللہ سے اس کی محبت اور شوق کو دیکھتے ہوئے) فرمایا: اللہ اس پر رحم کرے! لوگوں میں سے ایک آدمی (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) نے کہا: (اس کے لیے شہادت) واجب ہو گئی، اے اللہ کے رسول! آپ نے (اس کے حق میں دعا مؤخر فرما کر) ہمیں اس (کی صحبت) سے زیادہ مدت فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا؟ (سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے) کہا: ہم خیبر پہنچے تو ہم نے ان کا محاصرہ کر لیا یہاں تک کہ ہمیں (شدید بھوک کے) مخمصے نے آ لیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ اللہ نے اسے ان (جہاد کرنے والے) لوگوں کے لیے فتح کر دیا ہے۔ جب لوگوں نے اس دن کی شام کی جب انہیں فتح عطا کی گئی تھی تو انہوں نے بہت سی (جگہوں پر) آگ جلائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ آگ کیسی ہے اور یہ لوگ کس چیز (کو پکانے) کے لیے اسے جلا رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: گوشت (کو پکانے) کے لیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کون سا گوشت؟ انہوں نے جواب دیا: پالتو گدھوں کا گوشت۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے (پانی سمیت) بہا دو اور ان (برتنوں) کو توڑ دو۔ اس پر ایک آدمی نے کہا: یا اسے بہا دیں اور برتن دھو لیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا ایسے کر لو۔ کہا: جب لوگوں نے مل کر صف بندی کی تو عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی، انہوں نے مارنے کے لیے اس (تلوار) سے ایک یہودی کی پنڈلی کو نشانہ بنایا تو تلوار کی دھار لوٹ کر عامر رضی اللہ عنہ کے گھٹنے پر آ لگی اور وہ اسی زخم سے فوت ہو گئے۔ جب لوگ واپس ہوئے، سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اور اس وقت انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خاموش دیکھا تو آپ نے پوچھا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ میں نے آپ سے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان! لوگوں کا خیال ہے کہ عامر رضی اللہ عنہ کا عمل ضائع ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: کس نے کہا ہے؟ میں نے کہا: فلاں، فلاں اور اسید بن حضیر انصاری رضی اللہ عنہ نے۔ تو آپ نے فرمایا: جس نے بھی یہ کہا، غلط کہا ہے، اس کے لیے تو یقینا دو اجر ہیں۔ آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو اکٹھا کیا۔ وہ تو خود جم کر جہاد کرنے والے مجاہد تھے، کم ہی کوئی عربی ہو گا جو اس راستے پر ان کی طرح چلا ہو گا۔قتیبہ نے حدیث کے دو حرفوں (القین کے آخری دو حرفوں ی اور ن) میں محمد (بن عباد) کی مخالفت کی ہے اور (محمد) بن عباد کی روایت میں (القین کے بجائے) الق (ضرور بالضرور کی تاکید کے بغیر محض) نازل کر کے الفاظ ہیں
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6891 ´اگر کسی نے غلطی سے اپنے آپ ہی کو مار ڈالا` «. . . عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: أَسْمِعْنَا يَا عَامِرُ مِنْ هُنَيْهَاتِكَ، فَحَدَا بِهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ السَّائِقُ؟، قَالُوا: عَامِرٌ، فَقَالَ: رَحِمَهُ اللَّهُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَّا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، فَأُصِيبَ صَبِيحَةَ لَيْلَتِهِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: حَبِطَ عَمَلُهُ قَتَلَ نَفْسَهُ، فَلَمَّا رَجَعْتُ وَهُمْ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، فَجِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، فَقَالَ كَذَبَ مَنْ قَالَهَا، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ اثْنَيْنِ: إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ، وَأَيُّ قَتْلٍ يَزِيدُهُ عَلَيْهِ . . .» ”. . . سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ جماعت کے ایک صاحب نے کہا عامر! ہمیں اپنی حدی سنائیے۔ انہوں نے حدی خوانی شروع کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کون صاحب گا گا کر اونٹوں کو ہانک رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ عامر ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ ان پر رحم کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ہمیں عامر سے فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا۔ چنانچہ عامر رضی اللہ عنہ اسی رات کو اپنی ہی تلوار سے شہید ہو گئے۔ لوگوں نے کہا کہ ان کے اعمال برباد ہو گئے، انہوں نے خودکشی کر لی (کیونکہ ایک یہودی پر حملہ کرتے وقت خود اپنی تلوار سے زخمی ہو گئے تھے) جب میں واپس آیا اور میں نے دیکھا کہ لوگ آپس میں کہہ رہے ہیں کہ عامر کے اعمال برباد ہو گئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی! آپ پر میرے باپ اور ماں فدا ہوں، یہ لوگ کہتے ہیں کہ عامر کے سارے اعمال برباد ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہتا ہے غلط کہتا ہے۔ عامر کو دوہرا اجر ملے گا وہ (اللہ کے راستہ میں) مشقت اٹھانے والے اور جہاد کرنے والے تھے اور کس قتل کا اجر اس سے بڑھ کر ہو گا؟“ [صحيح البخاري/كِتَاب الدِّيَاتِ: 6891] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6891 کا باب: «بَابُ إِذَا قَتَلَ نَفْسَهُ خَطَأً فَلاَ دِيَةَ لَهُ:» باب اورحدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں اس شخص کا ذکر فرمایا ہے جو خطا کے ساتھ اپنے تئیں قتل ہو جائے تو اس پر دیت نہ ہو گی، مگر تحت الباب حدیث میں خطا کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں خطا کا ذکر اس لیے فرمایا کہ خطا کا معاملہ محل اختلاف ہے، لہٰذا ترجمۃ الباب کے ذریعے آپ راجح کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «والذى يظهر أن البخاري إنما قيّد بالخطاء لأنه محل الخلاف، قال ابن بطال: قال الأوزاعي و أحمد و إسحاق، تجب ديته على عاقلته، فإن عاش فهي له عليه، وإن مات فهي لورثته، وقال الجمهور لا يجب فى ذالك شيئي، وقصة عامر هذه حجة لهم إذ لم ينقل أن النبى صلى الله عليه وسلم أوجب فى هذه القصة له شيئا، ولو وجب لبيّنها إذ لا يجوز تأخير البيان عن وقت الحاجة، وقر اجمعوا (على) أنه لو قطع طرفًا من أطرافه عمدًا أو خطأ لا يجب فيه شيئي.» [فتح الباري لابن حجر: 186/13] ”جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے خطا کی قید اس لیے ذکر فرمائی ہے کہ یہ محل اختلاف ہے، بقول ابن بطال، اوزاعی، احمد اور اسحاق کے نزدیک اس صورت میں اس کی دیت اس کی عاقلہ کے ذمہ ہے، اگر زندہ رہا تو یہ اس کے لیے ان کے ذمہ ہے، اور اگر مر گیا تو اس کے ورثا کے لیے ہے، جمہور کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی چیز واجب نہیں ہو گی، سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ان کے لیے حجت ہے، کیوں کہ یہ منقول نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ میں کوئی شئی واجب فرمائی ہو، اگر واجب فرمائی ہوتی تو اس کا ذکر (لازماً) کرتے، کیونکہ وقت حاجت سے تاخیر بیان جائز نہیں، اس امر پر اجماع ہے کہ اگر عمداً یا غلطی سے اپنا کوئی عضو قطع کر لیا تو اس میں کچھ بھی واجب نہیں ہے۔“ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کا انعقاد کئی ایک حکمتوں کے پیش نظر فرمایا ہے، جن کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے، چنانچہ ترجمۃ الباب میں جو لفظ «خطاء» کا ہے، اس میں ایک یہ بھی حکمت ہے جس کا ذکر حافظ رحمہ اللہ کرتے ہیں، چنانچہ آپ لکھتے ہیں: «وظن الاسماعيلي تعقب ذالك على البخاري و ليس كما ظن و إنما ساق الحديث بلفظ ”فارتد عليه سيفه“ ثم نبه على أن هذا اللفظة لم تقع فى رواية البخاري هنا فأشار إلى أنه عدل هنا عن رواية مكي . . . . . ويجاب بأن البخاري يعتمد هذه الطريق كثيرًا فيترجم بالحكم و يكون قد أورد ما يدل عليه صريحًا فى مكان آخر فلا يجب أن يعيده . . . . . .» [فتح الباري لابن حجر: 187/13] ”اسماعیلی اس بات سے امام بخاری رحمہ اللہ کا تعقب کرتے ہیں مگر ان کا یہ ظن ٹھیک نہیں ہے کیونکہ انہوں نے یہ حدیث «فارتد عليه نفسه» کے الفاظ سے نقل کیے ہیں، پھر تنبیہ کی ہے کہ یہ الفاظ یہاں کی روایت بخاری میں نہیں تھے تو اشارہ کیا کہ اس نکتہ کے مدنظر مکی بن ابراہیم کی روایت سے عدول کیا ہے تو یہ اس کے وضوح کے مدنظر اولیٰ ہے، جواب دیا گیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ یہ اسلوب بکثرت استعمال کرتے ہیں کہ حکم کے ساتھ ترجمۃ الباب قائم کرتے ہیں اور انہیں اس پر صریحاً دال روایت کسی اور جگہ نقل کی ہوتی ہے تو اس کا اعادہ کرنا پسند نہیں کرتے تو اسے کسی اور طریق کے حوالے سے وارد کرتے ہیں۔“ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہوئی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب میں «خطاء» کے الفاظ شامل فرمائے ہیں یہ مفہوم بھی دوسری حدیث میں موجود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو یہاں ذکر نہیں فرمایا تاکہ تکرار کا باعث نہ بنے، چنانچہ جس حدیث میں اس لفظ «خطاء» کی صراحت ہے وہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ہی صحیح میں ذکر فرمائی جس کے الفاظ یہ ہیں: «فلما تصافّ القوم كان سيف عامر فيه قصر فتناول به يهوديًا ليضربه و يرجع ذباب سيفه فأصاب ركبة عامر فمات منه.» [صحيح البخاري: ح: 6148] ”یعنی جب لوگوں نے صف بندی کر لی تو سیدنا عامر رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار سے ایک یہودی پر وار کیا، ان کی تلوار چھوٹی تھی، اس کی نوٹ پلٹ کر خود انہی کے گھٹنوں پر لگی اور اس کی وجہ سے ان کی شہادت ہو گئی۔“ چنانچہ اس منظر کے پیش نظر باب کا تعلق حدیث کے ساتھ قائم ہو گیا۔ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «انما يتم مقصود الترجمة بذكر القصة التى مات فيها عامر، وذالك أن سيفه كان قصيرًا، فرجع إلى ركبته من ضربته، فمات منها، وقد بينه فى غير هذا الموضع.» [المتواري: ص 347] ”ترجمۃ الباب کا تمام ہونا اس قصہ کے ساتھ ہے جس میں سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، جس میں یہ واقعہ ہے کہ ان کی تلوار چھوٹی تھی، جس کی وجہ سے وہ پلٹ کر آپ ہی کے گھٹنوں پر لگی جس کی پاداش میں آپ کی شہادت ہوئی، اس واقعہ کی وضاحت دوسری جگہ پر ہے۔“ بدر الدین بن جماعۃ رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ترجمۃ الباب کا حدیث سے مطابقت کے لیے اس حدیث کو یہاں پر ذکر نہیں کیا، جس میں (خطاء) کا ذکر ہے، اور وہ روایت کچھ یوں ہے کہ سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار ہی آپ پر لوٹ آئی، جبکہ آپ کفار سے لڑ رہے تھے، پس اسی کی وجہ سے آپ قتل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر دیت بھی واجب نہیں فرمائی۔“ مزید لکھتے ہیں: «فاكتفى بذكر أصل الحديث للعلم لمطابقة للترجمة فى الرواية الأخرى و قدمنا غير مرة انه يعتاد ذائك كثيرًا.» [مناسبات تراجم البخاري ص 128] اب جہاں تک تعلق ہے، ترجمۃ الباب میں لفظ «دية» کا کہ تحت الباب حدیث میں دیت کے الفاظ موجود نہیں ہے تو اس کی مناسبت حدیث کے ساتھ کس طرح سے قائم ہو گی؟ لہذا اس لفظ کی مطابقت کے لیے علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «مطابقة للترجمة من حيث انه صلى الله عليه وسلم لم يحكم بالدية لورثة عامر على عاقلته أو على بيت المال المسلمين.» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري: 76/23] ”ترجمۃ الباب اور حدیث میں مطابقت یوں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عامر رضی اللہ عنہ کے وارثوں کو دیت دینے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔“ لہذا ان تصریحات سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت قائم ہوتی ہے۔ فائدہ: مذکورہ بالا حدیث امام بخاری رحمہ اللہ کی ثلاثیات میں سے ہے۔ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 254