You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَا: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ - فَتْحِ مَكَّةَ - «لَا هِجْرَةَ، وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا»،
It has been narrated on the authority of Ibn 'Abbas that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said on the day of the Conquest of Mecca: There is no Hijra now, but (only) Jihad (fighting for the cause of Islam) and sincerity of purpose (have great reward) ; when you are asked to set out (on an expedition undertaken for the cause of Islam) you should (readily) do so.
جریر نے منصور سے، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے طاوس سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: فتح کے دن جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ہجرت نہیں ہے، لیکن جہاد اور نیت ہے اور جب تم جہاد کے لیے بلایا جائے تو نکلو۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3189 ´دغا بازی کرنے والے پر گناہ خواہ وہ کسی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا بےعمل کے ساتھ` «. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ لَا هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا، وَقَالَ: يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهُ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، قَالَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ . . .» ”. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا، اب (مکہ سے) ہجرت فرض نہیں رہی۔ البتہ جہاد کی نیت اور جہاد کا حکم باقی ہے۔ اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے نکالا جائے تو فوراً نکل جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن یہ بھی فرمایا تھا کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اسی دن اس شہر (مکہ) کو حرم قرار دے دیا۔ پس یہ شہر اللہ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہی رہے گا، اور مجھ سے پہلے یہاں کسی کے لیے لڑنا جائز نہیں ہوا۔ اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لیے جائز کیا گیا۔ پس اب یہ مبارک شہر اللہ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس کی حدود میں نہ (کسی درخت کا) کانٹا توڑا جائے، نہ یہاں کے شکار کو ستایا جائے، اور کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے سوا اس شخص کے جو (مالک تک چیز کو پہنچانے کے لیے) اعلان کرے اور نہ یہاں کی ہری گھاس کاٹی جائے۔ اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ! اذخر کی اجازت دے دیجئیے۔ کیونکہ یہ یہاں کے سناروں اور گھروں کی چھتوں پر ڈالنے کے کام آتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اذخر کی اجازت ہے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ: 3189] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3189 باب: «بَابُ إِثْمِ الْغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح فرمایا کہ دغا بازی (دھوکہ دہی) کرنا سخت گناہ ہے چاہے کوئی دغا بازی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا گنہگار کے، مگر دغا باز ہر حال میں دغا بازی کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ ترجمۃ الباب کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث نقل فرمائی ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ”مکہ“ ایک حرمت والا شہر ہے اور وہاں کسی قسم کی لڑائی کرنا اللہ کے نزدیک حرام ہے، لیکن جب سیاق کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو مکہ والوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عہد کیا تھا اسے توڑ ڈالا، لہذا مکہ والوں نے دغا کیا، بنو خزاعہ کے مقابلے میں انہوں نے بنو بکر والوں کی مدد کی تو اللہ تعالی نے اس جرم کی پاداش میں انہیں سخت ترین سزا دی کہ حرمت والے شہر مکہ میں بھی انہیں مار ڈالنے کی اجازت عطا کی، لہذا یہاں سے ان کا دغا باز ہونا ثابت ہوا اور انہیں سخت ترین سزا دی گئی کہ حرمت والے شہر میں لڑنے کی اجازت ایمان والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عطا کی گئی کیوں کہ وہ دغا باز تھے اور دغا بازی کبیرہ گناہ ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے، اسی مناسبت کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں، آپ لکھتے ہیں: «و يحتمل أن يكون أشار بذالك إلى ما وقع من سبب الفتح الذى ذكر فى الحديث و هو غدر قريش بخزاعة حلفاء النبى صلى الله عليه وسلم لما تحاربوا مع بني بكر حلفاء قريش، فأمرت قريش بني بكر و أعانوهم على خزاعة و بيوتهم فقتلوا منهم جماعة.» [فتح الباري، ج 6، ص: 350] ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «وجه مطابقة الترجمة لحديث مكة، أن النبى صلى الله عليه وسلم نص على أنها اختصت بالحرمة إلا فى الساعة المستثناه و ليس المراد حرمة قتل المؤمن البر فيها.» [المتواري، ص: 200] ”ترجمۃ الباب سے مطابقت کی وجہ حدیث مکہ میں یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص فرمایا: ”مکہ کی حرمت کو سوائے اس استثنائی گھٹری میں (مکہ میں لڑنا جائز نہیں ہوا جس کا ذکر سابقہ اوراق میں کیا گیا) اور اس کی حرمت سے مراد یہ نہیں کہ مؤمن نیک آدمی کو اس میں قتل کیا جائے۔“ فائدہ: بعض منکرین حدیث مذکورہ بالا حدیث پر اشکال وارد کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: «لا هجرة و لكن جهاد و نية» یعنی ”ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔“ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن مجید قیامت تک ہجرت کو برقرار رکھتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: « ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ﴾ » [الانفال: 75] ”اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہیں۔“ مندرجہ بالا آیت کو نقل کرنے کے بعد ان کا دعوی یہ ہے کہ حدیث جس میں ہجرت کے عمل کو ختم کر دیا گیا ہے وہ آیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہو گی۔ دراصل یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو کہ سرسری طور پر قرآن اور احادیث کا مطالعہ کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہرگز یہ حکم نہیں ہے کہ ہجرت کا حکم منسوخ ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر غور کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے“، یعنی ان صحابہ کے لئے فتح مکہ کے بعد ہجرت کی فرضیت کو ساقط کیا تھا نہ کہ ہجرت کے حکم کو ساقط فرمایا گیا۔ اصول حدیث کا معروف قاعدہ ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی شرح کرتی ہے، بعض روایات کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اسی مسئلے پر اختلاف پیدا ہوا، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی، خبادہ بن ابی امیہ فرماتے ہیں: «أن رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بعضهم أن الهجرة قد انقطعت فاختلفوا فى ذالك، قال: فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم! أن أناسا يقولون، أن الهجرة قد انقطعت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أن ”الهجرة لا تنقطع ما كان الجهاد.“» [مسند احمد، ج 27، ص: 142، صححه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى الإصابة] ”اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بعضوں نے یہ کہا کہ ہجرت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، اس مسئلے میں (صحابہ میں) اختلاف ہوا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگ کہتے ہیں کہ ہجرت (کا حکم) منقطع ہو گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یقینا ہجرت (کا حکم) منقطع نہ ہو گا جب تک جہاد جاری رہے گا۔“ امام الطحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار میں حدیث کا ذکر فرمایا کہ: «لا تنقطع الهجرة ما قوتل الكفار.» [شرح مشكل الآثار للطحاوي، ج 7، رقم: 2631] ”جب تک کفار سے قتال ہو گا تب تک ہجرت رہے گی۔“ ان احادیث سے واضح ہوا کہ جب تک جہاد قائم رہے گا تب تک ہجرت کا حکم بھی باقی رہے گا، لہذا ”ہجرت نہیں ہے فتح مکہ کے بعد“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتح مکہ کے روز ہجرت کی ان کے لئے ہجرت کی فرضیت ساقط ہو گئی، نہ کہ قیامت تک ہجرت کا حکم منقطع ہوا۔ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 469