You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لِدُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ» [ص:1516]،
It has been narrated on the authority of Umar b. al-Khattab that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: (The value of) an action depends on the intention behind it. A man will be rewarded only for what he intended. The emigration of one who emigrates for the sake of Allah and His Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) is for the sake of Allah and His Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ; and the emigration of one who emigrates for gaining a worldly advantage or for marrying a woman is for what he has emigrated.
امام مالک نے یحییٰ بن سعید سے، انہوں نے محمد بن ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ بن وقاص سے، انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال کا مدار نیت پر ہی ہے، اور آدمی کے لیے وہی (اجر) ہے جس کی اس نے نیت کی۔ جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف تھی تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے اور جس شخص کی ہجرت دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے تھی تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی تھی۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 1 ´اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں` «. . . عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا الْأَعْمَال بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لكل امْرِئ مَا نَوَى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوِ امْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهجرَته إِلَى مَا هَاجر إِلَيْهِ» . . .» ”. . . سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی ہے، پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوئی ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول ہی کے لیے ہے اور جس کی ہجرت حصول دنیا یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہوئی ہے تو اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہوئی ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/مُقَدِّمَةٌ: 1] تخریج الحدیث: [صحيح بخاري 1، 54، 2529، 3898، 5070، 6689، 6953]، [صحيح مسلم 1907]، [سنن نسائي 3825]، [التعليقات السلفيه واللفظ له الا عنده ”لدنيا“ بدل ”الى دنيا“ وجاء فى بعض نسخ النسائي: ”الى دنيا.“] فقہ الحدیث: ➊ یہ حدیث «يحيٰي بن سعيد الانصاري عن محمد بن ابراهيم التيمي عن علقمه بن وقاص الليثي عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه» کی سند کے ساتھ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دوسری کتب حدیث میں موجود ہے نیز صحیح غریب، خبر واحد ہے۔ ➋ اس صحیح حدیث اور دیگر دلائل سے یہ ثابت ہے کہ حدیث مقبول کے لئے متواتر یا مشہور ہونا ضروری نہیں بلکہ خبر واحد صحیح بھی حجت ہے۔ ➌ عمل کی مقبولیت کا دارومدار نیت پر ہے، لہٰذا وضو، غسل، نماز، روزہ، حج اور تمام عبادات کے لئے نیت کا ہونا ضروری ہے اور اسی پر فقہاء کا اجماع ہے۔ ديكهئے: [الايضاح عن معاني الصحاح، لابن هبيرة ج1 ص56] سوائے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے، ان کے نزدیک وضو اور غسل جنابت میں نیت واجب نہیں (بلکہ) سنت ہے۔ ديكهئے: [الهدايه مع الداريه ج 1 ص 20] ➍ عربی لغت (زبان) میں دلی ارادے، عزم اور قصد کو نیت کہتے ہیں۔ ديكهئے: [القاموس الوحيد ص1730] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”نیت دل کے ارادے اور قصد کو کہتے ہیں، قصد و ارادہ کا مقام دل ہے زبان نہیں۔“ [الفتاوي الكبري ج1 ص1، وهذا مفهوم العبارة بالاردية] نماز کی نیت زبان سے کہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ میں کسی سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا اس زبانی عمل سے اجتناب کرنا چاہئے۔ ➎ کسی عمل کے عنداللہ مقبول ہونے کی تین شرطیں ہیں: ① عامل کا عقیدہ کتاب و سنت اور فہم سلف صالحین کے مطابق ہو۔ ② عمل اور طریقہ کار عین کتاب و سنت کے مطابق ہو۔ ③ اس عمل کو صرف اللہ کی رضا کے لئے سرانجام دیا جائے۔ ➏ رسالہ ”الحدیث“ حضرو، کی ابتدا میں اس حدیث اور فقہ الحدیث کا مقصد یہ ہے کہ ”الحدیث“ کے اجراء سے ہمارا مقصد، اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور بخشش ہے (اشاعتہ الحدیث ہے، دفاع حدیث ہے) کوئی دنیاوی فائدہ پیش نظر نہیں ہے۔ ➐ بعض علماء اس حدیث کو دین اسلام کا ثلث [1/3] قرار دیتے ہیں کیونکہ تمام اعمال کا تعلق: ① دل ② زبان ③ اور «جوارح» ہاتھ پاؤں وغیرہ سے ہے۔ چونکہ نیت کا تعلق دل سے ہے، لہٰذا یہ اسلام کا ثلث (ایک تہائی) ہے۔ ➑ یہ حدیث ان بدعتیوں (مثلاً مرجیہ وغیرہ) کا رد ہے جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ایمان دلی اعتقاد کے بغیر صرف زبانی قول کا نام ہے۔ عینی نے کہا: «فيه رد على المرجئة في قولهم الايمان اقرار باللسان دون الاعتقاد بالقلب» ”اس میں مرجیہ کے اس قول پر رد ہے کہ ایمان زبانی اقرار ہے، دل کا اعتقاد نہیں ہے۔“ [عمدة القاري34/1] ➒ صحیح بخاری میں «انما الاعمال بالنيات. الخ» والی پہلی روایت میں «فمن كانت هجرته الي الله ورسوله فهجرته الى الله و رسوله .» کے الفاظ موجود نہیں ہیں [ح1] جبکہ دوسری روایت [ح54 و صحیح مسلم] میں موجود ہیں، اس سے دو مسئلے ثابت ہوئے: اول: ایک روایت میں ذکر ہو اور دوسری میں عدم ذکر ہو تو عدم ذکر، نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوتا۔ دوم: ثقہ راوی کی زیادت، جب ثقہ راویوں یا اوثق کے ہر لحاظ سے خلاف نہ ہو تو یہ زیادت معتبر و مقبول ہوتی ہے۔ ➓ بعض علماء نے امام بخاری کے طرز عمل سے استنباط کیا ہے کہ انہوں نے کتاب بدء الوحی کے شروع میں «انماالاعمال بالنيات» والی حدیث ذکر کر کے دو مسئلے ثابت کئے ہیں: اول: حدیث بھی وحی ہے۔ دوم: امام الحمیدی المکی سے روایت میں یہ اشارہ ہے کہ دین اسلام اور نزول وحی کی ابتدا مکے سے ہوئی، اسی طرح صحیح بخاری کی آخری حدیث ابوہریرہ المدنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں یہ اشارہ ہے کہ دین اسلام مدینے میں مکمل ہو گیا۔ اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 1