You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، قَالَ: دَعَانَا عَرُوسٌ بِالْمَدِينَةِ فَقَرَّبَ إِلَيْنَا ثَلَاثَةَ عَشَرَ ضَبًّا، فَآكِلٌ وَتَارِكٌ، فَلَقِيتُ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنَ الْغَدِ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَأَكْثَرَ الْقَوْمُ حَوْلَهُ حَتَّى قَالَ بَعْضُهُمْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «لَا آكُلُهُ، وَلَا أَنْهَى عَنْهُ، وَلَا أُحَرِّمُهُ»، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بِئْسَ مَا قُلْتُمْ، مَا بُعِثَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مُحِلًّا وَمُحَرِّمًا، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ، وَعِنْدَهُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ، وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، وَامْرَأَةٌ أُخْرَى، إِذْ قُرِّبَ إِلَيْهِمْ خُوَانٌ عَلَيْهِ لَحْمٌ، فَلَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْكُلَ، قَالَتْ لَهُ مَيْمُونَةُ: إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ، فَكَفَّ يَدَهُ، وَقَالَ: «هَذَا لَحْمٌ لَمْ آكُلْهُ قَطُّ»، وَقَالَ لَهُمْ: «كُلُوا»، فَأَكَلَ مِنْهُ الْفَضْلُ، وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، وَالْمَرْأَةُ، وَقَالَتْ مَيْمُونَةُ: لَا آكُلُ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا شَيْءٌ يَأْكُلُ مِنْهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
Yazid b. al-Asamm reported: A newly wedded person of Medina invited us to a wedding feast, and he served us thirteen lizards. There were those who ate it and those who abandoned it. I met Ibn 'Abbas the next day, and informed him (about this) in the presence of many persons. Some of them said that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) had observed: I neither eat it nor forbid (anyone) from eating it, nor declare it to be unlawful. Thereupon Ibn 'Abbas said: Sad it is what you say! Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) has not been sent, but (to declare in clear words) the lawful and the unlawful (things). We were once with Allah's Messenger (may peace be. upon him) as he was with Maimuna, and there were with him al-Fadl b. 'Abbas, Khalid b. Walid and some women (also) when a tray of food containing flesh was presented to him. As Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) was about to eat that, Maimuna said: It is the flesh of the lizard. He withdrew his hand saying: That is the flesh which I never eat; but he said to them (those who were present there): You may eat. Al-Fadl ate out of that, so did Khalid b Walid, and the women. Maimuna (however) said: I do not eat anything but that which Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) eats.
شیبانی نے یزید بن اصم سے روایت کی، کہا: مدینہ منورہ میں ایک دلھا نے ہماری دعوت کی اور ہمیں تیرہ عدد(بھنے ہو ئے ) سانڈے پیش کیے ۔کو ئی (اس کو ) کھا نے والا تھا کو ئی نہ کھا نے والا ۔ دوسرے دن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا اور میں نے ان کو یہ بات بتا ئی ۔ان کے اردگرد مو جود لوگوں نے بہت سی باتیں کیں حتی کہ کسی نے یہ بھی کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا تھا : میں اسے نہ کھاتا ہوں نہ روکتا ہوں نہ اسے حرام کرتا ہوں ۔اس پر حضرت ابن عباس نے کہا: تم لو گوں نے جو کہا ناروا ہے ۔اللہ تعا لیٰ نے جو نبی بھیجا وہ حلال کرنے والا اور حرام کرنے والا تھا (حلت و حرمت کے حکم کو واضح کرنے والا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح تم سمجھ رہے ہو۔ غیر واضح بات نہیں کرتے تھے۔ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف فرما تھے اور آپ کے قریب فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ایک اور خاتون بھی مو جود تھی تو ان کے سامنے دسترخوان لا یا گیا جس پر گوشت تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کھانے کا ارادہ کیا تو حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی: یہ سانڈے کا گو شت ہے آپ نے ہاتھ روک لیا اور فر ما یا : یہ ایسا گو شت ہے جو میں نے کبھی نہیں کھا یا ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فر ما یا : کھاؤ ۔سو اس گوشت میں سے فضل خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اس خاتون نے کھا یا ۔حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا : میں تو صرف اس کھا نے میں سے کھا ؤں گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھا ئیں گے ۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7358 ´دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہو گی؟` «. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،" أَنَّ أُمَّ حُفَيْدٍ بِنْتَ الْحَارِثِ بْنِ حَزْنٍ أَهْدَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمْنًا وَأَقِطًا وَأَضُبًّا، فَدَعَا بِهِنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُكِلْنَ عَلَى مَائِدَتِهِ، فَتَرَكَهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَالْمُتَقَذِّرِ لَهُنَّ، وَلَوْ كُنَّ حَرَامًا مَا أُكِلْنَ عَلَى مَائِدَتِهِ وَلَا أَمَرَ بِأَكْلِهِنَّ . . .» ”. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ام حفید بنت حارث بن حزن رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھی اور پنیر اور بھنا ہوا سانڈا ہدیہ میں بھیجا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چیزیں قبول فرما لیں اور آپ کے دستر خوان پر انہیں کھایا گیا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (سانڈے کو) ہاتھ نہیں لگایا، جیسے آپ کو پسند نہ ہو اور اگر وہ حرام ہوتا تو آپ کے دستر خوان پر نہ کھایا جاتا اور نہ آپ کھانے کے لیے کہتے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7358] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7358 کا باب: «بَابُ الأَحْكَامِ الَّتِي تُعْرَفُ بِالدَّلاَئِلِ، وَكَيْفَ مَعْنَى الدِّلاَلَةِ وَتَفْسِيرِهَا:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کے ذریعے کئی اہم مسائل کی طرف اشارہ فرمایا ہے، چنانچہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «هذا الباب متعلق بتعليم طريقة الإجتهاد، و قد تكون معرفة الأحكام من عموم النص، و دلالة النص، و غيرها من أنواع الدلائيل المذكورة فى أصول الفقة.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 244/5] ”یہ باب طریقہ اجتہاد کی تعلیم پر مبنی ہے تاکہ احکام کی معرفت عموم نص سے، دلالۃ النص سے اور اس کے سوا دیگر دلائل کی انواع سے حاصل ہوں، جو اصول فقہ میں مذکور ہیں۔“ محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب کتاب الاعتصام میں اس غرض سے قائم فرمایا اور اسی طرح سے مختلف قسم کے ابواب باندھے تاکہ ان ابواب کے ذریعہ دوضروری چیزوں کی طرف اشارہ ہو جائے اہل اصول کو، اول یہ کہ اصول شریعہ چار اقسام پر ہیں، «الكتاب، و السنة، و الإجماع، و القياس» اور دوسرا اصول یہ ہے کہ «عبارة النص، إشارة النص» اور اس کا اقتضاء کی طرف اشارہ ہو، چنانچہ آپ لکھتے ہیں: «أن الإمام البخاري قد أشار فى ”كتاب الاعتصام“ بتراجم عديدة إلى مسائل الأصول كما ترى، فهكذا أشار لهذه الترجمة إلى أمرين قد نبه عليهما أصحاب الأصول، الأول: ما قالوا ان أصول الشرع أربعة: الكتاب، و السنة، و الاجماع، و القياس، وأشار إلى هذه الأربعة بقوله: التى تعرف بالدلائل . . . . . و الأمر الثاني، هو ما ذكروه من تقسيم الاستدلال من الكتاب و السنة إلى أقسام عديدة معروفة عندهم من عبارة النص، و إشارته و دلالته و اقتضائه، فأشار إلى هذا الأمر الثاني بقوله، و كيف معنى الدلالة.» [الابواب و التراجم: 767/6] ”ان معلومات سے واضح ہوا کہ باب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ کی کئی ایک اغراض ہیں، جنہیں آپ رحمہ اللہ نے تحت الباب احادیث کے ذریعے حل فرمائے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ عرض بھی کرتے چلیں کہ محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے حجت شرعیہ کو چار چیزوں میں تقسیم کیا ہے جس کا ذکر سابقہ سطروں میں گزرا، تین چیزیں: کتاب و سنت اور اجماع، یہ حجت حجت ہیں مگر قیاس شرعی اصولوں کی بناء پر حجت نہیں ہے بلکہ ہم اسے حجت مظہرہ کہہ سکتے ہیں یعنی مجتہد جس میں دین نہیں ہو گا۔ لہذا باب اور حدیث میں مناسبت اس جہت سے ہو گی کہ پہلی حدیث جو عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے اس کی باب سے مناسبت یوں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بدلالت عقل سے سمجھ گئیں کہ کپڑے سے وضو نہیں ہو سکتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اس مسئلے پر دال نہیں تھے، لہٰذا لفظ «توضأ» سے وہ خاتون نے کچھ اور مراد لیا مگر امی عائشہ رضی اللہ عنہا سمجھ گئیں کہ اس سے مراد آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی یہ ہے کہ اس کپڑے کو بدن پر پھیر کر پاکی حاصل کر لے۔“ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «و مطابقة الحديث للترجمة فى قوله توضئي بها فإنه وقع بيانه للسائلة بما فهمته عائشة رضي الله عنها و أقرها النبى صلى الله عليه وسلم على ذالك لأن السائلة لم تكن تعرف أن تتبع الدم بالفرصة يسمي توضوا فلما فهمت عائشة غرضه بينت للسائلة ما خفي عليها . . . . .» [ارشاد الساري: 109/12] ”دوسری حدیث جو ام حفید بنت الحارث ابن حزن سے مروی ہے اس حدیث کی باب سے مناسبت یوں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ساہنہ کو کھا رہے تھے اور لازماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر پر حرام چیز کا ہونا ناممکن ہے، لہٰذا اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے دلالت شرعیہ کی مثال دی کہ جب ساہنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر دوسرے لوگوں نے کھایا تو معلوم ہوا کہ وہ حلال ہے، لہٰذا یہ حدیث باب کے اس جزء «الأحكام التى تعرف بالدلائل» سے مناسبت رکھتی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے سے منع نہیں فرمایا اور ساہنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر پر رکھا گیا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز سے نہ روکنا یہ بھی احکام شرعیہ میں حجت ہیں اور اسی طرح حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سمجھ لیا اور پہچان لیا تو اس حدیث کی مناسبت بھی اسی جہت سے ہو گی، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔“ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفائے راشدین کے بعد اہل مدینہ کے کیا معاملات تھے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اہل مدینہ کا عمل مفتیوں، امراء اور بازاروں پر «محتسبين» کے حکم کے مطابق تھا، رعیت ان لوگوں کی مخالفت نہیں کر سکتی تھی، پس اگر مفتی فتوی دیتے تو والی اسے نافذ کرتا اور محتسب اس کے مطابق عمل کرتا، اسی طرح وہ فتوی معمول بہ ہو جاتا، لیکن یہ چیز قابل التفات نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اعمال سنت ہیں، لہٰذا ان دونوں میں سے ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا جائے گا، پس ہمارے نزدیک اس عمل پر تحکیما زیادہ شدید ہے اور اس کے مقابلے میں دوسری چیز (متاخرین اہل مدینہ ان کا عمل) اگر خلاف سنت ہو تو ترک کیے جانے کے شدید مستحق ہے۔“ نواب صدیق حسن خان بھوپالی رحمہ اللہ اس مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے متعین کے برخلاف اہل مدینہ کا عمل بھی کسی صحیح حدیث کے خلاف حجت نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ بھی امت میں سے بعض ہیں (یعنی کل نہیں ہیں)، لہٰذا اس بات کا جواز موجود ہے کہ وہ صحیح خبر ان تک نہ پہنچی ہو۔“ [حصول المامول من علم الاصول: ص 59] ان تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ کسوٹی صرف سنت نبوی ہی ہو گی، اس کے خلاف اہل مدینہ کا عمل، کوفہ، بصرہ، شام، یمن، مصر، دمشق، بالفرض کوئی بھی معروف یا غیر معروف علمی شہر یا غیر علمی شہر ہو، کسوٹی ہرگز نہیں بن سکتا۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «كيف أترك الخبر لأقوال أقوام لو عامرتهم لما حجتهم بالحديث .» [الاحكام فى اصول الاحكام للامدی: 165/2] ”میں خبر (یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کو اقوال سے کس طرح ترک کر سکتا ہوں، اگر میں ان لوگوں کے مابین موجود ہوتا تو ان سے حدیث کی حجت پر بحث کرتا۔“ بس کسوٹی صرف قرآن و حدیث ہی ہے یہی گفتگو کا حاصل ہے۔ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 308