You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ
Jabir reported Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: Sacrifice only a grown-up animal, unless it is difficult for you, in which case sacrifice a ram (of even less than a year, but more than six months' age).
حضرت جا بر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :صرف مسنہ (دودانتا ) جا نور کی قربانی کرو ہاں ! اگر تم کو دشوار ہو تو ایک سالہ دنبہ یا مینڈھا ذبح کر دو۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3141 ´قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے؟` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صرف مسنہ (دانتا جانور) ذبح کرو، البتہ جب وہ تم پر دشوار ہو تو بھیڑ کا جذعہ (ایک سالہ بچہ) ذبح کرو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3141] اردو حاشہ: فوائد و مسائل: علامہ البانی ؒبیان کرتے ہیں کہ حضرت مجاشع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جذعہ سے مراد بھیڑ کا جذعہ ہے بکری کا جذعہ نہیں۔ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے نماز عید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کرلیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ گوشت کی بکری ہے۔ (قربانی کی نہیں۔) انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! میرے پاس ایک بکری کا جذعہ ہے۔ (کیا میں اس کی قربانی دے دوں؟) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قربان کردو لیکن تمھارے سوا کسی اور کے لیے درست نہیں۔ (صحيح البخاري، الأضاحي، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم لأبي بردة ((ضح بالجذع من المعزولن تجزي عن أحد بعدك) ) حديث: 5556) علامہ البانی نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی روشنی میں بھیڑ کا جذعہ (ایک سال کا بچہ جس کے دانت نہ ٹوٹے ہوں) جائز ہے۔ اور یہ جو از اس شرط کے ساتھ مشروط نہیں کہ دو دانتا (مسنه) دستیاب نہ ہو، بلکہ مطلق جائز ہے۔ واللہ اعلم۔ دیکھیے: (حاشہ ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث زیر مطالعہ نیز حدیث: 3154 کا فائدہ) سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3141