You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ أَبُو كُرَيْبٍ الْهَمْدَانِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ تَزَوَّجَنِي الزُّبَيْرُ وَمَا لَهُ فِي الْأَرْضِ مِنْ مَالٍ وَلَا مَمْلُوكٍ وَلَا شَيْءٍ غَيْرَ فَرَسِهِ قَالَتْ فَكُنْتُ أَعْلِفُ فَرَسَهُ وَأَكْفِيهِ مَئُونَتَهُ وَأَسُوسُهُ وَأَدُقُّ النَّوَى لِنَاضِحِهِ وَأَعْلِفُهُ وَأَسْتَقِي الْمَاءَ وَأَخْرُزُ غَرْبَهُ وَأَعْجِنُ وَلَمْ أَكُنْ أُحْسِنُ أَخْبِزُ وَكَانَ يَخْبِزُ لِي جَارَاتٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَكُنَّ نِسْوَةَ صِدْقٍ قَالَتْ وَكُنْتُ أَنْقُلُ النَّوَى مِنْ أَرْضِ الزُّبَيْرِ الَّتِي أَقْطَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِي وَهِيَ عَلَى ثُلُثَيْ فَرْسَخٍ قَالَتْ فَجِئْتُ يَوْمًا وَالنَّوَى عَلَى رَأْسِي فَلَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَدَعَانِي ثُمَّ قَالَ إِخْ إِخْ لِيَحْمِلَنِي خَلْفَهُ قَالَتْ فَاسْتَحْيَيْتُ وَعَرَفْتُ غَيْرَتَكَ فَقَالَ وَاللَّهِ لَحَمْلُكِ النَّوَى عَلَى رَأْسِكِ أَشَدُّ مِنْ رُكُوبِكِ مَعَهُ قَالَتْ حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ بِخَادِمٍ فَكَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَتْنِي
Asma' daughter of Abu Bakr reported that the was married to Zubair. He had neither land nor wealth nor slave nor anything else like it except a bom. She further said: I grazed his horse. provided fodder to it and looked after it, and ground dates for his camel. Besides this, I grazed the camel, made arrangements for providing it with water and patched up the leather bucket and kneaded the flour. But I was not proficient in baking the bread, so my female neighbours used to bake bread for me and they were sincere women. She further said: I was carrying on my head the stones of the dates from the land of Zubair which Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) had endowed him and it was at a distance of two miles (from Medina). She add: As I was one day carrying the atones of dates upon my head I happened to meet Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) along with a group of his Companions. He called me and said (to the camel) to sit down so that he should make cite ride behind hirn. (I told my husband: ) I felt shy and remembered your jealousy, whereupon he said: By Allah. the carrying of the stone dates upon your bead is more severe a burden than riding with him. She said: (I led the life of hardship) until Abu Bakr sent afterwards a female servant who took upon herself the responsibility of looking after the horse and I felt as it she had emancipated me.
ہشام کے والد (عروہ ) نے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انھوں نے (حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) نے کہا : حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے نکا ح کیا تو ان کے پاس ایک گھوڑے کے سوانہ کچھ مال تھا ،نہ غلام تھا، نہ کو ئی اور چیز تھی۔ان کے گھوڑے کو میں ہی چارا ڈالتی تھی ان کی طرف سے اس کی ساری ذمہ داری میں سنبھا لتی ۔اس کی نگہداشت کرتی ان کے پانی لا نے والے اونٹ کے لیے کھجور کی گٹھلیاں توڑتی اور اسے کھلا تی میں ہی (اس پر) پانی لا تی میں ہی ان کا پانی کا ڈول سیتی آٹا گوندھتی ،میں اچھی طرح روٹی نہیں بنا سکتی تھی تو انصار کی خواتین میں سے میری ہمسائیاں میرے لیے روٹی بنا دیتیں ،وہ سچی (دوستی والی) عورتیں تھیں ،انھوں نے (اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زمین کا جو ٹکڑا عطا فرما یا تھا وہاں سے اپنے سر پر گٹھلیاں رکھ کر لا تی یہ (زمین ) تقریباً دو تہائی فرسخ (تقریباً 3.35کلو میٹر) کی مسافت پر تھی ۔کہا : ایک دن میں آرہی تھی گٹھلیاں میرے سر پر تھیں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے کچھ لو گ آپ کے ساتھ تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا یا ،پھر آواز سے اونٹ کو بٹھا نے لگے تا کہ (گٹھلیوں کا بوجھ درمیان میں رکھتے ہو ئے) مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیں۔انھوں نے (حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخاطب کرتے ہو ئے ) کہا : مجھے شرم آئی مجھے تمھا ری غیرت بھی معلوم تھی تو انھوں (زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا : اللہ جا نتا ہے کہ تمھارا اپنے سر پر گٹھلیوں کا بوجھ اٹھا نا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے ۔کہا : (یہی کیفیت رہی) یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے پاس (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ حدیث :5693۔)ایک کنیز بھجوادی اور اس نے مجھ سے گھوڑے کی ذمہ داری لے لی ۔(مجھے ایسے لگا ) جیسے انھوں نے مجھے (غلا می سے) آزاد کرا دیا ہے ۔
ابوبكر قدوسي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 5692 ´ اگر اجنبی عورت راہ میں تھک گئی ہو تو اس کو اپنے ساتھ سوار کر لینا ` ”. . . ایک دن میں وہیں سے گٹھلیاں لا رہی تھی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا پھر اونٹ کے بٹھانے کی بولی بولی اخ اخ تاکہ اپنے پیچھے مجھ کو سوار کر لیں مجھے شرم آئی اور غیرت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم گٹھلیوں کا بوجھ سر پر اٹھانا میرے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے (یعنی ایسے بوجھ کو تو گوارا کرتی ہے اور میرے ساتھ بیٹھ کیوں نہیں جاتی) اسماء نے کہا: پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی مجھے بھیجی وہ گھوڑے کا سارا کام کرنے لگی گویا انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔“ [صحيح مسلم/كِتَاب السَّلَامِ/ باب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ:/ فواد: 4057، دارالسلام: 5692] فوائد و مسائل دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا ان کا کہنا ہے کہ عورت اور مردکا ایک دوسرے سے ایسا اختلاط جائز ہے: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک صاحب نے تین راویات لکھ کے اہنی دانست میں ”ثابت“ کیا کہ: ”غیر محرم عورت کسی مرد کو اور مرد اس کو چھو سکتے ہیں“ -- بخاری کی دو روایات اور مسلم کی ایک روایت ہے - لیجئے ان کی اپنی پوسٹ سے راویت کا ترجمہ پڑھئے: ............. عرض ہے کہ ضرورت کے تحت ایسا اختلاط جائز و مباح ہے اور اس پر یہ دلائل موجود ہیں: 1) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی کام کے لئے جہاں چاہتی لے جاتی۔ [صحيح بخاري، كتاب الادب، باب الكبر، حديث 6072] 2) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنا دورانِ حج کا واقعہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں: پھر میں بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا تو اس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں اور کنگھی کی۔ [صحيح بخاري، كتاب المغازي، باب حجة الوداع، حديث 4397] 3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کو سر پر وزن لادا ہوا آتے دیکھ کر اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھایا تھا۔ [صحيح مسلم رقم 2182، دارالسلام 5692] مشہور محدث و امام نووی نے اس واقعہ سے استدلال لیتے ہوئے باب باندھا ہے: «باب جواز إرداف المرأة الأجنبية إذا أعيت فى الطريق» ”یعنی راستے میں تھک جانے والی اجنبی عورت کو اپنے ساتھ سواری پر بیٹھانے کا جواز“ لہٰذا کریم اور اوبر سروس کا استعمال بلاشبہ مباح اور جائز ہے۔ «هٰذا ما عندي والله اعلم» ....................... جی یہ تھا ان کا موقف۔۔۔۔ پہلی راویت میں لکھا ہے کہ مدینے کی لونڈیوں سے کوئی لونڈی ...اب ترجمہ کرنے والے کی ”مہارت“ دیکھیے کہ آسان سا ترجمہ (مدینے کی لونڈیوں سے ایک لونڈی) بھی کیا جا سکتا تھا ..لیکن اس طرح ”مقصد“ حاصل نہیں ہوتا تھا - کیونکہ اس طرح واضح ہو جاتا کہ وہ ایک لونڈی ایسا کیونکر کرتی تھی ... اور وہی ایسا کیوں کرتی تھی .اب ایک i بجائے ”کوئی لونڈی“ کرنے سے یہ تاثر پڑا کہ کبھی کوئی اور کبھی کوئی ایسا کر لیتی تھی .. روایت کے الفاظ ہیں: «ان كانت الامه من اماء اهل المدينه» اور امام بخاری نے اس پر باب باندھا ہے: «باب الكبر» یعنی تکبر کی برائی .. مطلوب معنی یہ ہے کہ عورت پاگل تھی پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اہمیت دیتے۔ .دوستو! اسی لونڈی کا تذکرہ ایک اور حدیث میں بھی ہے جس میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھامے بہت دیر تک کھڑی رہی اور آپ نے اس سے ہاتھ نہیں چھڑایا .... جی ہاں یہی حدیث ہے جس سے غامدی صاحب نے بھی استدلال کرتے ہوے عورت اور مرد کا مصافحہ جائز قرار دیا تھا ..... دوستو! مدینے میں موجود یہ لونڈی اصل میں ذہنی طور پر معذور یا مجذوب تھی اور اس کی اس حالت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت کے سبب اس سے ہاتھ نہ چھڑایا ... یہی وجہ ہے کہ اوپر بیان کردہ پہلی حدیث میں جس میں وہ لونڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھامے آپ کو کسی نہ کسی کام سے لے جاتی ....کیا عنوان امام بخاری رحمہ اللہ نے تکبر سے اعراض باندھا ہے .. یعنی اس کو آپ کی نرمی اور شفقت اور عدم غرور پر محمول کیا ہے ... ------------------ دوسری حدیث جو سیدنا ابو موسی اشعری والی ہے خود صاحب پوسٹ کے عنوان سے ہی نہیں ملتی کہ مجبوری میں غیر محرم سے اختلاط کیا جا سکتا ہے ... سوال یہ ہے سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کو کیا مجبوری تھی .؟.. کیا جوئیں نکلوانا بھی کوئی ایسی مجبوری ہو جاتی ہے کہ غیر محرم سے یہ کام کروایا جائے؟ ... اصل قصہ جو چھپا لیا گیا کہ ہے وہ یہ تھا کہ خاتون ان کی رضاعی خالہ تھیں ... دوستو! ایک حدیث کو پکڑ لیا جاتا ہے، اپنی مرضی کا مفھوم پیش کیا جاتا ہے، جب کہ بسا اوقات اس حدیث سے محدثین کوئی اور مفھوم مراد لے رہے ہوتے ہیں اور ان کی مراد جو مفھوم ہوتا ہے، تو ضرورت کے واسطے وہ مختصر حدیث لے کے آتے ہیں ..جب کہ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ اس "اعتراض " کی صورت میں مکمل حدیث پیش کی جا سکتی ہے یا دوسری حدیث جو اس اعتراض کو رفع کرتی ہے اس کو بیان کیا جائے گا ...مگر آجکل کے ”دانش ور“ کبھی لاعلمی سے اور کبھی مجرمانہ طور پر ادھوری احادیث لے کے آتے ہیں اور ہمارے ”معصوم“ دوست الجھ کے رہ جاتے ہیں - سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی یہی معاملہ ہے ...کہ دوسری روایت ان کے اس عورت سے رشتے کو واضح کر رہی تھی لیکن اس کا ذکر ہی نہیں کیا گیا - ظاہر ہے پھر "تھرتھلی " کس طرح مچتی، اور ذہنوں میں شکوک کہاں سے انڈیلے جاتے۔ ------------------ تیسری راویت کا بھی یہی معاملہ ہے ...کس طرح ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیر محرم خاتون کو اس طرح اونٹ پر بٹھا لیں کہ اس کا جسم آپ سے چھو جائے، بھلے وہ آپ سے عمر میں بہت چھوٹی اور رشتے میں سالی ہی تھیں ..جب کہ انہی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی سگی چھوٹی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہی روایت ہے کہ: ”اللہ کی قسم نبی کریم نے کبھی بیعت کے واسطے بھی کسی غیر محرم عورت کو نہیں چھوا۔“ دوستو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ پر ایک کجاوہ دھرا ہوتا تھا اس کے پیچھے باقاعدہ ٹیک کے لیے اونچی لکڑی ہوتی تھی ... یوں اگر کوئی پیچھے بٹھ بھی جائے، بیچ میں لکڑی کی رکاوٹ موجود رہتی تھی ... جیسا کی بخاری حدیث نمبر [5967] میں، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھنے کی کفیت بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں: «ليس بيني و بينه الا آخره الرحل» ”میرےاور آپ کے درمیان سواے کجاوۓ کی لکڑی کے بیچ کچھ نہ تھا۔“ اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ کسی غیر محرم عورت کو چھونے سے بہتر ہے کہ جسم میں کوئی لوہے کی کنگھی داخل ہو ے زخمی کر دے - اب خود ہی سوچئے کہ اس تعلیم دینے کے بعد کیا اس بات کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ خود آپ ہی اس کا اہتمام نہ کریں۔ جہاں تک تعلق ہے امام نووی رحمہ اللہ کے کے باب کا جو انہوں نے حدیث پر باندھا ہے تو اس سے کس کو انکار ہے .. بنا چھوے، اور جسم ملائے کسی خاتون کو ساتھ بٹھا لینا جائز ضرور ہے .. لیکن یاد رکھیے اس جواز کی صورت وہی ہو گی جو دوسری احادیث کی بیان کردہ شرائط کے مطابق ہو گی۔۔۔۔ ابوبکر قدوسی - محدث فورم، حدیث\صفحہ نمبر: 0