You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وَحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقُرَشِيُّ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ أُمَّتِي كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا، فَجَعَلَتِ الدَّوَابُّ وَالْفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيهِ، فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ وَأَنْتُمْ تَقَحَّمُونَ فِيهِ»
Abu Huraira reported Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: The similitude of mine and that of my Umma is that of a person who lit fire and there began to fall into it insects and moths. And I am there to hold you back, but you plunge into it.
مغیرہ بن عبدالرحمان قرشی نے ہمیں ابو زناد سے حدیث بیان کی،انھوں نے اعرج سے،انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری اور میری امت کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو حشرات الارض اور پتنگے اس آگ میں گرنے لگے۔تو میں تم کو کمر سے پکڑ کر روکنے والا ہوں اور تم زبردستی اس میں گرتے جارہے ہو۔
حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 4 ´نبی صلی اللہ علیہ وسلم امت کو جہنم کی آگ سے بچاتے ہیں` «. . .قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلِي كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا، فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهَا جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِي يَقَعْنَ فِي النَّارِ يَقَعْنَ فِيهَا، وَجَعَلَ يَحْجُزُهُنَّ وَيَغْلِبْنَهُ فَيَتَقَحَّمْنَ فِيهَا، فَذَاكَ مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ، أَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ، هَلُمَّ عَنِ النَّارِ، هَلُمَّ عَنِ النَّارِ، فَتَغْلِبُونِي تَقَحَّمُونَ فِيهَا .» ”رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری مثال ایسے شخص کی سی ہے جس نے آگ روشن کی ہو۔ پھر جب اطراف کی چیزیں روشن ہو جاتی ہیں تو پروانے اور کیڑے مکوڑے جو آگ میں گرا کرتے ہیں، اس میں گرنے لگے ہوں، اور وہ شخص ان کو روکنے لگتا ہے لیکن وہ اس (شخص) پر غالب آ جاتے ہیں اور آگ میں گرنے لگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس میری اور تمہاری مثال یہی ہے، میں تمہیں تمہاری کمروں سے پکڑ کر آگ سے بچانا چاہتا ہوں (اور پکار پکار کر کہتا ہوں کہ) آگ سے بچو، آگ سے بچ جاؤ، مگر تم مجھ پر غالب آ جاتے ہو اور آگ میں گھستے ہی چلے جاتے ہو۔“ [صحيفه همام بن منبه/متفرق: 4] شرح الحدیث: نبى کریم صلى اللہ علیہ وسلم کى رافت و رحمت: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی تمنا اور کوشش تھی کہ اپنی امت کو جہنم سے بچا لیں۔ اسی لیے ان کے سامنے ہر گناہ والا اور جہنم میں لے جانے والا عمل واضح کر دیا تاکہ وہ (امت) جہنم سے بچ جائیں۔ اسی بات کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کچھ اس طرح فرمایا: «لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ» [التوبة: 128] ”(مسلمانو!) تمہارے لیے تم ہی میں سے ایک رسول آئے ہیں جن پر ہر وہ بات شاق گزرتی ہے جس سے تمہیں تکلیف ہوتی ہے، تمہاری ہدایت کے بڑے خواہشمند ہیں، مومنوں کے لیے نہایت شفیق اور مہربان ہیں۔“ معلوم ہوا کہ نبى کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی صفت ہے کہ آپ پر ہر وہ بات شاق گزرتی ہے جس سے امت مسلمہ کو تکلیف پہنچتی ہے، اور یہ بھی آپ کی صفت ہے کہ آپ دل سے تمنا کرتے ہیں کہ آپ کی امت جہنم میں نہ ڈالی جائے، اور یہ بھی تمنا کرتے ہیں کہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کی طرف اپنی امت کی رہنمائی کر دیں۔ اور آپ کی صفات عالیہ میں سے ہے کہ آپ مومنوں کے لیے بہت ہی رحمدل ہیں، اسی وجہ سے چاہتے ہیں کہ وہ عمل صالح کریں، اور گناہوں کا ارتکاب نہ کریں تاکہ اللہ کی جنت کے حقدار بنیں۔ ابن العربی فرماتے ہیں: ”معروف قول ہے کہ جب پروانہ اندھیرے میں اچانک روشنی دیکھتا ہے تو چراغ سے روشنی حاصل کرنے کا گمان کرکے اس چراغ کی طرف بڑھتا ہے اور آخرکار وہ جل جاتا ہے۔“ [عارضة الاحوذي: 325/10] فاسد عقیدہ جہنم میں لے جاتا ہے: ”اسی طرح لوگوں کی مثال ہے کہ توحید کے علاوہ جب کوئی فاسد عقیدہ اور فتنہ دیکھتے ہیں تو اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں، اور درحقیقت اس فاسد عقیدہ میں مبتلا ہو کر بالآخر جہنم میں چلے جاتے ہیں۔“ [عارضة الاحوذي: 325/10] امام غزالی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”انسان فاسد العقیدہ ہونے کی حالت میں جانوروں سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ آگ میں جانے والے کیڑے مکوڑے ایک ہی دفعہ جل کر ختم ہو جاتے ہیں، جبکہ انسان اپنی خواہشات نفس کی اتباع کر کے ہمیشہ کی آگ میں چلا جاتا ہے جہاں سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں۔ لہذا اب اگر انسان اپنی خواہشات نفس کی اتباع کرے تو وہ جانوروں سے بھی زیادہ جاہل ہے۔“ [ارشاد الساري: 403/5] چنانچہ قرآن مجید میں ہے: «لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ» [الأعراف: 179] ”ان کے دل ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن کے ساتھ وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن کے ساتھ وہ سنتے نہیں، یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں، یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں۔“ فتح الباری [319/11] میں اس حدیث کو اچھے انداز میں سمجھایا گیا ہے کہ ا”س حدیث میں آگ سے مراد شریعت کی بیان کردہ حدود اور گناہ کے امور ہیں جو کہ مشرق و مغرب تک پہنچی اور وہاں روشنی کی، لیکن لوگ بجائے اس کے کہ اس آگ سے بچتے، حدود نہ پھلانگتے اور معاصی میں واقع نہ ہوتے، انہوں نے اس امر کا خیال ہی نہ کیا اور حدود کو پھلانگ دیا اور معاصی میں واقع ہو گئے، جب کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے بارہا منع کیا، گویا آپ لوگوں کو ان کی پیٹھوں سے پکڑ پکڑ کر آگ سے بچانا چاہتے ہیں، جب کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں سن رہے اور آخر وہ آگ میں گر ہی پڑے۔ جیسا کہ آدمی آگ اپنے انتفاع کے لیے جلاتا ہے اور لوگوں کے نفع کے لیے بھی، لیکن پروانے اس میں گر پڑتے ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاصی اور حدود تو بیان کی تھیں کہ لوگ نہ حدود پھلانگیں اور نہ معاصی میں واقع ہوں، لیکن لوگ گناہوں میں گر پڑے، اور حدود اللہ کو بھی پھلانگ دیا، اور جہنم کی آگ میں گر پڑے۔“ انتہى ملحضاً صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث\صفحہ نمبر: 4