You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
وَحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، سَمِعَ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللهِ عَنِ ابْنِ الْمُغَفَّلِ، قَالَ: أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، ثُمَّ قَالَ: «مَا بَالُهُمْ وَبَالُ الْكِلَابِ؟» ثُمَّ رَخَّصَ فِي كَلْبِ الصَّيْدِ وَكَلْبِ الْغَنَمِ، وَقَالَ: «إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِي الْإِنَاءِ فَاغْسِلُوهُ سَبْعَ مَرَّاتٍ، وَعَفِّرُوهُ الثَّامِنَةَ فِي التُّرَابِ»
Ibn Mughaffal reported: The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ordered killing of the dogs, and then said: What about them, i. e. about other dogs? and then granted concession (to keep) the dog for hunting and the dog for (the security) of the herd, and said: When the dog licks the utensil, wash it seven times, and rub it with earth the eighth time.
عبید اللہ بن معاذ نے ہمیں اپنےوالد سے حدیث بیان کی (کہا:)ہمیں میرے والد نے ، انہیں شعبہ نے ابو التیاح سے روایت کرتے ہوئے حدیث سنائی۔ اور انہوں نے مطرف بن عبد اللہ سے سنا، ابن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، پھر فرمایا:’’ان کا کتوں سے کیا واسطہ ہے ؟‘‘ پھر (لوگوں سے ضروریات کی تفصیل سن کر ) شکار اور بکریوں ( کی حفاظت کرنے )والے کتے (رکھنے) کی اجازت دی اور فرمایا:’’جب کتا برتن میں سے پی لے تو اسے سات مرتبہ دھوؤ اورآٹھویں بار( زیادہ روایات میں ہے ایک بار) مٹی سے صاف کرو
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 67 ´جس برتن میں کتا منہ ڈال دے اسے مٹی سے مانجھنے کا بیان۔` عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا ۱؎ اور شکاری کتوں کی اور بکریوں کے ریوڑ کی نگہبانی کرنے والے کتوں کی اجازت دی، اور فرمایا: ”جب کتا برتن میں منہ ڈال دے، تو اسے سات مرتبہ دھوؤ، اور آٹھویں دفعہ اسے مٹی سے مانجھو“ ۲؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 67] 67۔ اردو حاشیہ: ➊ ایک وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا، پھر آپ نے قتل کرنے سے روک دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ کسی مخلوق کو کلیتاً ختم کرنا درست نہیں۔ ہر مخلوق کے پیدا کرنے میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہے اگرچہ کوئی مخلوق ظاہراً نوع انسانی کے لیے نقصان دہ ہی محسوس ہوتی ہو۔ یہ حکم اب بھی حالات کے تابع ہے۔ ➋ یہ حدیث اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ کتے کا منہ، اس کا لعاب دہن اور اس کا جوٹھا نجس و ناپاک ہے اور یہی اس کے سارے بدن کے نجس و ناپاک ہونے پر دلالت کرتی ہے اور برتن کے سات مرتبہ دھونے کو واجب ٹھراتی ہے اور مٹی کے ساتھ صاف کرنا بھی واجب ہے۔ محققین کی رائے یہی ہے۔ ➌ شکار کی غرض سے اور کھیتی اور جانوروں کی حفاظت کے لیے کتا رکھنا ضرورت ہے، لہٰذا شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔ ان مقاصد کے سوا کسی اور مقصد کے لیے، مثلاً: شوق کے طور پر یا کسی اور وجہ سے کتا رکھنا جائز نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ”جو شخص مال مویشی کے تحفظ، شکار یا کھیتی کی دیکھ بھال کے سوا کتا رکھتا ہے، اس کے ثواب میں سے ہر روز ایک قیراط ثواب کم ہو جاتا ہے۔“ [صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2322، و صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 1575] نیز شکار اور رکھوالی وغیرہ کے لیے رکھے گئے کتے کے جھوٹے اور برتن وغیرہ کا بھی وہی حکم ہے جو عام کتے کا ہے۔ علاوہ ازیں گھروں میں کتے کا ہونا فرشتۂ رحمت سے محرومی کا سبب ہے۔ دیکھیے: [جامع الترمذي: الأدب، حديث: 2806] ➍ جس برتن میں کتا منہ ڈالے اسے سات بار دھونا ضروری ہے، اس کے علاوہ اس برتن کو ایک مرتبہ مٹی سے مانجھنا بھی ضروری ہے۔ مٹی کا استعمال شروع میں بھی ہو سکتا ہے اور آخر میں بھی کیونکہ صحیح مسلم میں: «اولاھن بالتراب» ”پہلی بار مٹی سے مل کر دھوؤ۔“ کے الفاظ ہیں اور صحیح مسلم کی مذکورہ روایت میں: «عَفِّرُوهُ الثَّامِنَةَ بِالتُّرَابِ» ”اسے آٹھویں مرتبہ مٹی سے مل کر دھوؤ۔“ ان دونوں احادیث کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ سات بار پانی سے دھونے کے ساتھ ساتھ جب ایک بار مٹی استعمال کی جائے گی تو یہ مٹی کا استعمال آٹھویں بار دھونا ہے۔ ➎ مٹی نجاست کی بو، لیس اور جراثیم ختم کرتی ہے۔ پانی کے ساتھ بسا اوقات یہ چیزیں ختم نہیں ہوتیں، البتہ ظاہری نجاست ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا پانی کے علاوہ ایک دفعہ (کم از کم) مٹی یا اس کے قائم مقام کوئی بھی کیمیکل وغیرہ لگانا ضروری ہے۔ سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 67