You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَأَبُو كُرَيْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْبَجَلِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ
Abu Huraira reported Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as saying: Two are the expressions which are light on the tongue, but heavy in scale, dear to the Compassionate One: Hallowed be Allah and praise is due to Him ; Hallowed be Allah, the Great.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور میزان میں بھاری ہیں اور اللہ کو بہت محبوب ہیں: سبحان اللہ وبحمدہ سبحان العظیم اللہ ہر اس چیز سے پاک ہے جو اس کے شایان شان نہیں اور سب حمد اسی کو سزاوار ہے، اللہ ہر اس چیز سے پاک ہے جو اس کے شایان شان نہیں اور عظمت کی ہر صفت سے متصف ہے۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7563 ´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ انبیاء میں) فرمان ”اور قیامت کے دن ہم ٹھیک ترازوئیں رکھیں گے“` «. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ . . .» ”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بوجھل اور باوزن ہوں گے، وہ کلمات مبارکہ یہ ہیں «سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم» ۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7563] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7563 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ}:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب «الجامع الصحيح» میں عجیب عجیب لطائف کے نظارے کروائے ہیں، عجیب عجیب طریقے سے استنباط اور اجتہاد کے دروازے کھولے ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلی حدیث جو کتاب الوحی میں ذکر فرمائی ہے اس میں «إنما الأعمال بالنيات» کو درج فرمایا، تاکہ پڑھنے والا اپنی نیت کو درست کر لے اور یہ ثابت فرمایا کہ ہر عمل کی قبولیت نیت سے ہوا کرتی ہے اور اس کو ثواب بھی اس کی نیت کے موافق ملے گا، پہلی حدیث کی سند میں پہلے اس راوی کو چنا جو قریشی ہے اور امی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی نسبت سے تعلق رکھتا ہے، اور سند میں سارے راوی شروع میں مکی ہیں اور مکی کے بعد مدنی ہیں۔ یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ دین اسلام مکہ سے شروع ہوا اور مدینہ پہنچا، اس کے بعد ساری دنیا میں، یہاں تک کہ عجم تک پہنچا، اسی لیے مندرجہ بالا آخری حدیث «كلماتان حبيبتان» میں بعض راوی عجمی ہیں، دوسرا تعلق یہ ہے کہ انسان کی راہنمائی کی ابتداء وحی کے ذریعہ ہے اسی لیے کتاب الوحی کا ذکر فرمایا ہے، اور تمام اعمال کرنے کے بعد موت کا معاملہ ہے، اور اعمال کی اصل شرط قبولیت عقیدہ توحید ہے، لہذا آخری میں کتاب التوحید کا ذکر فرمایا، اور آخری امتحان ترازو کا ہے اسی لیے آخری حدیث ترازو کے متعلق قائم فرمائی ہے۔ اس حوالے سے ایک اور نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلی حدیث «إنما الأعمال بالنيات» ذکر فرمائی ہے اور آخری حدیث «كلمتان حبيبتان» ذکر فرمائی، سند کے اعتبار سے یہ دونوں احادیث «غريب» ہیں، گویا امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں کہ «بداء الإسلام غريبًا و سيعود غريبًا كما بدأ . . . . .» گویا یہاں پر یہ مقصود ہے کہ ان دونوں ابواب میں جتنی احادیث ہیں سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہیں۔ چنانچہ سراج الدین البلقینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «مناسبة أبواب صحيح البخاري الذى نقلته عنه فى أواخر المقدمة مما كان أصل العصمة أولاً و آخرًا هو توحيد الله فختم بكتاب التوحيد.» [فتح الباري لابن حجر: 662/14] ”یعنی شیخ سراج الدین بلقینی رحمہ اللہ نے کہا کہ صحیح بخاری کے ابواب کی مناسبت جسے میں نے اپنے اواخر مقدمہ میں لکھا ہے کہ ان میں اول و آخر عصمت (پاکیزگی) کو ملحوظ رکھا گیا ہے جس کی اصل اللہ کی توحید ہے، اسی لیے آپ نے کتاب کو کتاب التوحید پر ختم کیا ہے اور آخر امر جس سے ناجی و غیر ناجی میں فرق ہو گا، وہ روز حشر میں میزان کا بھاری اور ہلکا ہونا ہے، اس کو اسی لیے کتاب کا آخری باب قرار دیا ہے، پس «إنما الأعمال بالنيات» سے کتاب کو شروع فرمایا اور نیتوں کا تعلق دنیا سے ہے اور اس پر ختم کیا کہ اعمال قیامت کے دن وزن کیے جائیں گے، اس میں ادھر اشارہ ہے کہ وہی اعمال خیر میزان حشر میں وزنی ہوں گے جو خالص نیت کے ساتھ رضائے الٰہی کے لیے کیے گئے ہوں گے، اور حدیث جو اس باب کے تحت مذکور ہوئی، اس میں ترغیب اور تخفیف بھی ہے۔“ لہذا ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جس حدیث کو پیش فرمایا ہے اس میں میزان کا ذکر ہے، لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «أن البخاري قصد ختم كتابه ”الجامع الصحيح“ بما دلّ على الوزن، لأنه آخر أثار التكليف، فإنه ليس بعد الوزن إلا الاستقرار فى أحد الدارين، إلى أن يريد الله إخراج من قضىٰ بتعزيبه من الموحّدين، فيخرجون من النار بالشفاعة.» [فتح الباري لابن حجر: 460/14] ”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے قصد فرمایا کہ اپنی صحیح بخاری کو اس مقام پر ختم کریں جہاں وزن کی دلالت ہو، کیوں کہ آخری تکلیف وزن ہی کی ہے، وزن کے قائم ہونے کے بعد صرف استقرار ہو گا دو جگہوں میں سے ایک جگہ پر۔ پس جسے اللہ تعالیٰ عذاب سے نکالنا چاہے گا موحدین کو تو انہیں آگ کے عذاب سے شفاعت کے ذریعے نکال دیا جائے گا۔“ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 328