You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ ح و حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ح و حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ كُلُّهُمْ عَنْ الْأَعْمَشِ ح و حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ جَاءَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ رَجُلٌ فَقَالَ تَرَكْتُ فِي الْمَسْجِدِ رَجُلًا يُفَسِّرُ الْقُرْآنَ بِرَأْيِهِ يُفَسِّرُ هَذِهِ الْآيَةَ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ قَالَ يَأْتِي النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ دُخَانٌ فَيَأْخُذُ بِأَنْفَاسِهِمْ حَتَّى يَأْخُذَهُمْ مِنْهُ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ مَنْ عَلِمَ عِلْمًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ اللَّهُ أَعْلَمُ إِنَّمَا كَانَ هَذَا أَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ وَجَهْدٌ حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنْ الْجَهْدِ وَحَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَغْفِرْ اللَّهَ لِمُضَرَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا فَقَالَ لِمُضَرَ إِنَّكَ لَجَرِيءٌ قَالَ فَدَعَا اللَّهَ لَهُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّا كَاشِفُوا الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ قَالَ فَمُطِرُوا فَلَمَّا أَصَابَتْهُمْ الرَّفَاهِيَةُ قَالَ عَادُوا إِلَى مَا كَانُوا عَلَيْهِ قَالَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ قَالَ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ
Masruq reported that there came to Abdullah a person and said: I have left behind in the mosque a man who explains the Qur'an according to his personal discretion and he explained this verse: So wait for the day when the Heaven brings a clear smoke. He says that a smoke would come to the people on the Day of Resurrection anl it will withhold breath and they would be inflicted with cold. 'Abdullah said: He who has knowledge should say something and he who has no knowledge should simply say: Allah is best aware. This reflects the understanding of a person that he should say about that which he does not know that it is Allah who knows best. The fact is that when the Quraish disobeyed Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) he supplicated Allah that they should be afflicted with famine and starvation as was done in case of Yusuf. And they were so much hard pressed that a person would ace the sky and he would see between him and the sky something like smoke and they were so much hard pressed that they began to cat the bones, and a person came to Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and said: Allah's Messenger. seek forgiveness for the tribe of Mudar for (its people) have been undone. The Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: For Mudar? You are overbold, but he supplicated Allah for them. It was upon this that this verse was revealed: We shall remove the chastisement a little, but they will surely return to evil (xliv. 15). lie (the narrator) said: There was a downpoor of rain upon them. When there was some relief for them they returned to the same position as they had been before, and Allah, the Exalted and Glorious, revealed this verse: So wait for the day when the heaven brings a clear smoke enveloping people. This is a grievous torment on the day when We seize them with the most violent seizing; surely, We shall exact retribution. And this (seizing) implied (Battle) of Badr.
ابو معاویہ ،وکیع،اور جریر نے اعمش سے،انھوں نے مسلم بن صحیح سے اور انھوں نے مسروق سے روایت کی کہ حضرت عبداللہ(بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا:میں مسجد میں ایک ایسے شخص کو چھوڑ کر آرہا ہوں جو اپنی رائے سے قرآن مجید کی تفسیر کرتا ہے وہ(قرآن کی) آیت:جب آسمان سے واضح دھواں اٹھے گاکی تفسیر کرتا ہے ،کہتا ہے:قیامت کےدن لوگوں کے پاس ایک دھواں آئے گا جو لوگوں کی سانسوں کو گرفت میں لے لے گا ،یہاں تک کہ لوگوں کو زکام جیسی کیفیت(جس میں سانس لینی مشکل ہوجاتی ہے)درپیش ہوگی ،توحضرت عبداللہ(بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے کہا:جس کے پاس علم ہو وہ اس کے مطابق بات کہے اور جو نہ جانتا ہو،وہ کہے:اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔یہ بات انسان کے فہم(دین) کاحصہ ہے۔ کہ جس بات کو وہ نہیں جانتا اس کے بارے میں کہے:اللہ زیادہ جاننے والاہے۔اس(دھوئیں) کی حقیقت یہ تھی کہ قریش نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سخت نافرمانی سے کام لیا تو آپ نے ان کے خلاف یوسف علیہ السلام (کے زمانےوالے )قحط کے سالوں جیسی قحط سالی کی دعاکی۔انھیں قحط اور تنگ دستی نے آلیا یہاں تک کہ(ان میں سے) کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھنے لگتا تو بھوک کی شدت سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں ساچھایا ہوا نظرآتا یہاں تک کہ ان لوگوں نے(بھوک کی شدت سے)ہڈیاں تک کھائیں،چنانچہ(ان میں سے) ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ(قبیلہ) مضر کے لئے بخشش طلب فرمائیں۔وہ ہلاکت کا شکار ہیں،تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مضر کے لئے؟تو بہت جراءت والا ہے(کہ اللہ سے شرک اور اس کے رسول سے بغض کے باوجود د رخواست کررہا ہے کہ میں تمہارے لئے اللہ سے دعا کروں)کہا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(پھر بھی) ان کے حق میں دعا فرمادی۔اس پر اللہ عزوجل نے(آیت) نازل فرمائی:ہم(تم سے) تھوڑے عرصے کے لئے عذاب ہٹادیتے ہیں۔تم(پھر کفر ہی میں) لوٹنے والا ہو۔(حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:پھر ان پر بارش برسائی گئی۔انھیں خوشحالی مل گئی،کہا:(تو پھر) وہ اپنی اسی روش پر لوٹ گئے جس سے پہلے تھے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ حصہ) نازل فرمایا:آپ انتظار کیجئے جب آسمان ظاہر دھواں لے آئے گا۔جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا،یہ دردناک عذاب ہوگا۔(پھر یہ آیت نازل فرمائی) جس دن ہم بڑ ی گرفت میں لیں گے،ہم انتقام لینے والے ہوں گے۔کہا:یعنی جنگ بدر کو۔
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 272 ´لاعلمی کا اعتراف کوئی عیب نہیں` «. . . وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أعلم فَإِن من الْعلم أَن يَقُول لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ (قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنا من المتكلفين) . . .» ”. . . سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگو! جو شخص کسی بات کو جانتا ہو تو اسے بیان کر دینا چاہئے۔ اور جو نہیں جانتا (اس سے وہ دریافت کیا گیا) تو اسے یہ کہنا چاہئے «الله اعلم» ”اللہ خوب جانتا ہے۔“ یہ بھی ایک قسم کا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا: «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» [بخاري و مسلم] ۔ یعنی آپ فرما دیجئے کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجرت نہیں طلب کرتا اور نہ میں بات بنانے والوں میں سے ہوں۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 272] تخریج: [صحيح بخاري 4809]، [صحيح مسلم 7066] فقہ الحدیث: ➊ جس مسئلے کا علم نہ ہو تو صاف بتا دینا چاہئے کہ مجھے پتا نہیں ہے یا میں نہیں جانتا اور خواہ مخواہ تکلف کر کے اپنا دماغی و اختراعی فتویٰ جاری نہیں کرنا چاہئے۔ ➋ کتاب و سنت، اجماع اور آثار سلف صالحین کی پیروی میں ہی نجات ہے۔ ◄ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ اور جماعت اہل حدیث کے اعیان و ارکان (1322ھ) میں لاہور شہر میں جمع ہوئے، اس اجلاس میں اس امر پر بحث ہوئی کہ اہل حدیث کے نام سے کون شخص موسوم ہو سکتا ہے؟ طویل بحث و مباحثہ کے بعد یہ قرار دیا گیا کہ ”اہل حدیث وہ ہے جو اپنا دستور العمل و الاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کو بناوے اور جب اس کے نزدیک ثابت و متحقق ہو جائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یا اس سے قوی نہیں پایا جاتا تو وہ ان احادیث و آثار پر عمل کرنے کو مستعد ہو جاوے اور اس عمل سے اس کو کسی امام یا مجتہد کا قول بلا دلیل مانع نہ ہو۔“ [تاريخ اهلِ حديث ج1 ص151، ازقلم ڈاكٹر محمد بهاؤالدين] ◄ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”اس معیار کے دوسرے درجہ پر جہاں صحیح حدیث نبوی نہ پائی جاتی ہو، دوسرا معیار سلفیہ آثار صحابہ کبار و تابعین ابرار و محدثین اخیار ہیں، جس مسئلہ اعتقادیہ و عملیہ میں صریح سنت نبوی کا علم نہ ہو، اس مسئلے میں اہل حدیث کا متمسک آثار سلفیہ ہوتے ہیں اور وہی مذہب اہل حدیث کہلاتا ہے۔“ [تاريخ اهلحديث ج 1 ص 157] ◄ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”خلاصہ یہ کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں۔“ [فتاويٰ اهلحديث ج 1 ص 111] اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 272