You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، - قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ - حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: كُنَّا نَقُولُ فِي الصَّلَاةِ خَلْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: السَّلَامُ عَلَى اللهِ السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ. فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ: " إِنَّ اللهَ هُوَ السَّلَامُ، فَإِذَا قَعَدَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَقُلْ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّالِحِينَ، فَإِذَا قَالَهَا أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ لِلَّهِ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الْمَسْأَلَةِ مَا شَاءَ "
`Abdullah (b. Mas`ud) said: While observing prayer behind the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) we used to recite: Peace be upon Allah, peace be upon so and so. One day the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said to us: Verily Allah is Himself Peace. When any one of you sits during the prayer, he should say: All services rendered by words, by acts of worship, and all good things are due to Allah. Peace be upon you, O Prophet, and Allah's mercy and blessings. Peace be upon us and upon Allah's upright servants, for when he says this it reaches every upright servant in the heavens and the earth. (And say further): I testify that there is no god but Allah and I testify that Muhammad is His servant and Messenger. Then he may choose any supplication which pleases him and offer it.
۔ جریر نے منصور سے، انہوں نے ابو وائل سے اور انہوں نے حضرت عبد اللہ (بن مسعود)رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم نماز میں رسول اللہﷺ کے پیچھے کہتے تھے: اللہ پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو۔ (بخاری کی روایت میں جبریل پر میکائیل پر سلام ہو۔) تو ایک دن رسول اللہﷺ نے ہم سے فرمایا: ’’بلاشبہ اللہ خود سلام ہے، لہٰذا جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو کہے: بقا وبادشاہت، اختیار وعظمت اللہ ہی کےلیے ہے، اور ساری دعائیں اور ساری پاکیزہ چیزیں (بھی اسی کےلیے ہیں)، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو۔ جب کوئی شخص یہ (دعائیہ) کلمات کہے گا تو یہ آسمان و زمین میں اللہ کے ہر نیک بندے تک پہنچیں گے۔ (پھر کہے:) میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کےبندے اور رسول ہیں، پھر جو مانگنا چاہے اس کا انتخاب کر لے۔‘‘
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6265 ´دونوں ہاتھ پکڑنا` «. . . وَصَافَحَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ابْنَ الْمُبَارَكِ بِيَدَيْهِ . . .» ”. . . اور حماد بن زید نے ابن مبارک سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: Q6265] «. . . سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ:" عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَفِّي بَيْنَ كَفَّيْهِ التَّشَهُّدَ، كَمَا يُعَلِّمُنِي السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَهُوَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْنَا، فَلَمَّا قُبِضَ، قُلْنَا السَّلَامُ"، يَعْنِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .» ”. . . میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا، اس وقت میرا ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھا (اس طرح سکھایا) جس طرح آپ قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے۔ «التحيات لله والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حیات تھے۔ جب آپ کی وفات ہو گئی تو ہم (خطاب کا صیغہ کے بجائے) اس طرح پڑھنے لگے «السلام. على النبي» یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام ہو۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ: 6265] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6265 کا باب: «بَابُ الأَخْذِ بِالْيَدَيْنِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: ترجمۃ الباب میں «باليدين» کا ذکر ہے، جبکہ کئی نسخوں میں «باليدين» کا ذکرنہیں ہے، یعنی صحیح بخاری کے نسخے اس بابت متفق نہیں ہیں، بعض میں بالیدین بصیغہ تثنیہ وارد ہوا ہے اور بعض نسخوں میں بالید بصیغہ واحد، ابوزر اور مستملی کے نسخہ کے مطابق بصیغہ واحد مذکور ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بایں الفاظ میں لکھا ہے: «(باب الأخذ باليد) كذا فى رواية أبى زر عن الحموي والمستملي، وللباقين ”باليدين“ و فى نسخة ”باليمين“ و هو غلط.» (2) ”(ایک ہاتھ سے مصافہ کرنا) «باب الأخذ باليد» یہ ترجمۃ الباب ابوزر کی حموی اور المستملی سے نقل صحیح ہے، اور باقیوں کے ہاں (بالیدین)، اور ایک نسخہ میں (بالیمین) ہے جو کہ غلط ہے۔“ علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: «و أورد فيه حديث ابن مسعود المذكور مطولا موصولا فمراده بهذا الباب: أن هذا الفعل الصادر من النبى صلى الله عليه وسلم لابن مسعود ليس من المصافحة فى شيئ، بل من باب الأخز باليد الذى قد يقع من غير حصول مصافحة، و به تحصل المطابقة لما ترجم له، ولهذا أورد أثر حماد بن زيد كالرد عليه، وهذه عادته انه أحيانا يورد الآثار فى الباب للرد عليها.» (3) ”تحت الباب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت وارد فرمائی، موطولا اور موصولا بھی، پس اس سے مراد باب کی طرح ہے کہ یہ فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوا تھا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا تھا، (سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نہیں)، اور یہ مصافحہ نہیں تھا، بلکہ باب ہے ایک ہاتھ سے جس میں مصافحہ کا حصول نہیں ہے اور اسی تحصیل کے لیے باب قائم ہے اور اسی لیے حماد بن زید کے اثر کا ذکر فرمایا تاکہ اس کا رد کر دیں، (کہ دو ہاتھوں سے مصافحہ نہیں ہے) اور یہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ بسا اوقات آپ تحت الباب جو آثار پیش کرتے ہیں وہاں ان کا رد کرنا مقصود ہوتا ہے۔“ علامہ عبدالحق رحمہ اللہ کے اقتباسات سے یہ بات واضح ہوئی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے بارے میں باب نہیں قائم فرمایا، بلکہ آپ نے «أخذ باليد» کا باب قائم فرمایا ہے، کیوں کہ آپ رحمہ اللہ کا یہاں مقصود دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے رد کا ہے، اسی لیے تحت الباب زید بن حماد کا اثر نقل فرمایا اور اس کا رد کیا دقیق الفاظوں سے، پھر اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل فرمائی، حدیث میں مصافحہ کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھا جو اس بات کی روشن دلیل ہے کہ یہاں پر مصافحہ ثابت کرنا مقصود نہیں بلکہ دو ہاتھوں سے مصافحہ کرنے والوں کا رد اور وہ رد اس انداز سے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم و تربیت کے لیے اپنے دونوں ہاتھوں کو استعمال فرمایا نہ کہ مصافحہ کی غرض سے، اور اگر یہاں پر دو ہاتھوں سے مصافحہ مراد ہوتا تو اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ تھا جس کے احناف بھی قائل نہیں ہیں، چنانچہ اس موقع پر محدث عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کی گزارشات فائدے سے خالی نہ ہوں گی، چنانچہ آپ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ”قول سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ «وكفى بين كفيه» میں لفظ «كفى» سے ظاہر یہ ہے کہ ان کی فقط ایک ہتھیلی مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ حالت تعلیم تشہد میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی فقط ایک ہتھیلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں میں تھی، کیوں کہ «كفى» میں لفظ «كف» مفرد ہے اور مفرد فرد واحد پر دلالت کرتا ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کف کو بصیغہ تثنیہ اور اپنے کف کو بصیغہ مفرد ذکر کرنا بھی ظاہر دلیل اسی امر کی ہے کہ لفظ «كفى» سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک ہتھیلی مراد ہے، نیز سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اگر دونوں ہتھیلیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں متبرک ہتھیلیوں میں ہوتیں تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ضرور اس کی تصریح فرماتے اور اہتمام اور اعتناء کے ساتھ بلکہ فخر کے ساتھ فرماتے «وكفاى بين كفيه» یعنی میری دونوں ہتھیلیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی، اس صورت میں «وكفى بين كفيه» کہنے کا موقع نہیں ملتا، نیز سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی غرض «وكفى بين كفيه» سے اس حالت اور وضع کا بتانا ہے جس حالت اور وضع کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تشہد کی تعلیم دی . . . . .“ مطلب یہ ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی فقط ایک ہتھیلی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی تو ظاہر ہے کہ اس دلیل سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے والوں کا دعوی کسی طرح بھی ثابت نہیں ہو سکتا، کیوں کہ یہ لوگ اس طرح کے مصافحہ کے قائل نہیں بلکہ اس مصافحہ کے قائل ہیں جس میں دونوں جانب سے دو دو ہتھیلیاں ملائی جائیں، پس جو ان کا دعوی ہے وہ اس دلیل سے ثابت نہیں ہوتا اور جو ثابت ہوتا ہے وہ ان کا دعوی نہیں ہے۔(1) یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود اس باب سے مصافحہ کو ثابت کرنے کا نہیں ہے، بلکہ آپ کا مقصود بغیر مصافحہ کے حصول کے لیے ہے، کیوں کہ ما قبل باب «باب المصافحة» قائم فرما کر آپ نے مصافحہ کرنے کو ثابت فرمایا، کیوں کہ لفظ مصافحہ صفح سے ہے، جس کے معنی ہتھیلی سے ہتھیلی ملانا ہے، اس مقام پر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مصافحہ ہتھیلی سے ہتھیلی کو ملانا ہے، نہ کہ ہتھیلیوں سے ہتھیلیاں ملانا تو اس سے ثابت ہوا کہ «باب الأخذ باليدين» کا تعلق بغیر حصول مصافحہ کے ہیں، چنانچہ عبدالحی رحمہ اللہ جو کہ حنفی ہیں اور آپ کا مقام اہل علم میں شمار ہے، آپ لکھتے ہیں: «وآنچه كه در صحيح بخاري در باب مذكور از عبدالله بن مسعود رضي الله عنه درست.» (2) ”یعنی صحیح بخاری میں جو سیدنا عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا، اس حالت میں کہ میری ہتھیلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہتھیلیوں میں تھی، سو ظاہر یہ ہے کہ یہ مصافحہ متوراضہ جو بوقت ملاقات مسنون ہے وہ نہیں ہے، بلکہ طریقہ تعلیمیہ تھا کہ اکابر کسی چیز کے اہتمام تعلیم کے وقت دونوں ہاتھوں سے یا ایک ہاتھ سے اصاغر کا ہاتھ پکڑ کر تعلیم دیتے تھے۔“ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «. . . . . إدخال هذا الحديث فى المصافحه أن الأخذ باليد يستلزم التقاء صفحة اليد بصفحة اليد غالبًا و من ثم أفردها بترجمة تلي هذه الجواز وقوع الأخذ باليد من غير حصول المصافحة.» (3) ”مصافحہ کے باب میں اس حدیث (عبد اللہ بن ہشام والی، رقم الحدیث: 6474) کو داخل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہاتھ پکڑ نا غالبا صفحہ ید سے التقاء کو مستلزم ہے، اسی وجہ سے آگے ( «باب الأخذ باليدين» میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث) کو حصول مصافحہ کے بغیر ہاتھ تھام لینے کے جواز کا ترجمہ لائے ہیں۔“ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «و لما كان الأخذ باليد يجوز أن يقع من غير حصول مصافحة أفرده بهذا الباب.» (1) ان تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ترجمۃ الباب، امام بخاری رحمہ اللہ نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کا نہیں باندھا، بلکہ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول زیادہ تر صحیح «الأخذ باليد» ہی ہے اور اگر تھوڑی دیر کے لیے «الأخذ باليدين» مان بھی لیا جائے تو تین چیزیں قابل غور ہوں گی: اول: ترجمۃ الباب سے دونوں ہاتھوں کا مصافحہ ثابت نہیں ہوگا، کیوں کہ ماقبل باب اسی مسئلے کے لیے دال ہے۔ دوم: حماد بن زید کا اثر، اس سے بھی مصافحہ بالیدین ثابت نہ ہو گا۔ ثالث: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث مصافحہ پر دلالت نہیں کرتی، جس کو ہم نے پچھلے اوراق میں ثابت کیا ہے۔ اب ترجمۃ الباب سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ نہ کرنے پر دلیل اخذ کی جا سکتی ہے، کیوں کہ تحت الباب ایسی کوئی حدیث پیش نہیں فرمائی جبکہ حدیث طریقہ تعلیم پر دال ہے۔ «فافهم!» عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 200