You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، - وَاللَّفْظُ لَهُ - قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ. فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» قَالَتْ: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ وَإِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ لَا يُسْمِعِ النَّاسَ فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» قَالَتْ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ وَإِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ لَا يُسْمِعِ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَتْ لَهُ: فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ» مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ: فَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، قَالَتْ: فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَجَدَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ، قَالَتْ: فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ، ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُمْ مَكَانَكَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ: فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ جَالِسًا وَأَبُو بَكْرٍ قَائِمًا يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَقْتَدِي النَّاسُ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ
A'isha reported: When the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) was confined to bed, Bilal came to him to summon him to prayer. He (the Holy Prophet) said: Ask Abu Bakr to lead the people in prayer. She ('A'isha) reported: I said: Messenger of Allah, Abu! Bakr is a tenderhearted man, go when ]be would stand at your place (he would be so overwhelmed by feelings) that he would not be able to make the people hear anything (his recitation would not be audible to the followers in prayer). You should better order Umar (to lead the prayer). He (the Holy Prophet) said: Ask Abu Bakr to lead people in- prayer. She ('A'isha) said: I asked Hafsa to (convey) my impression to him (the Holy Prophet) that Abu Bakr was a tenderhearted man, so when he would stand at his place, he would not be able to make the people bear anything. He better order Umar. Hafsa conveyed this (message of Hadrat 'A'isha) to him (the Holy Prophet). The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: (You are behaving) as if you are the females who had gathered around Yusuf. Order Abd Bakr to lead the people in prayer. She ('A'isha) reported: So Abu Bakr was ordered to lead the people in prayer. As the prayer began, the Messenger of Allah (may peace he upon him) felt some relief; he got up and moved supported by two persons and his feet dragged on earth (due to excessive weakness). 'A'isha reported: As he (the Holy Prophet) entered the mosque. Abu Bakr perceived his (arrival). He was about to with. draw, but the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) by the gesture (of This hand) told him to keep standing at his place. The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) came and seated himself on the left side of Abu Bakr. She ('A'isha) reported: The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) was leading people in prayer sitting. Abu Bakr was following the prayer of the Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) in a standing posture and the people were following the prayer of Abu Bakr.
ابو معاویہ اور وکیع نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے اسود سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ جب رسول اللہﷺ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا: ’’ ابو بکر سے کہو وہ نماز پڑھائیں۔‘‘ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ابو بکر جلد غم زدہ ہو جانے والے انسان ہیں اور وہ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قراءت بھی) نہیں سنا سکیں گے، لہٰذا اگر آپ عمررضی اللہ عنہ کو حکم دے دیں (تو بہتر بہتر ہو گا۔) آپ ﷺ نے (پھر) فرمایا: ’’ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا: نم نبی اکرمﷺ سے کہو کہ ابو بکر جلد غمزدہ ہونے والے انسان ہیں، جب وہ آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو (قراءت) نہ سنا سکیں، چنانچہ اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں (تو بہتر ہو گا۔) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے کہہ دیا تو آپ نے فرمایا: ’’تم یوسف کے ساتھ (معاملہ کرنے) والی عورتوں ہی طرح ہو، ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: لوگوں نے ابو بکررضی اللہ عنہ کو حکم پہنچا دیا تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کر دی تو رسول اللہﷺ نے طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی، آپ اٹھے، دو آدمی آپ کو سہارا دیے ہوئے تھے اور آپ کے پاؤں زمین پر لکیر کھینچتے جا رہے تھے۔ وہ فرماتی ہیں: جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو ابو بکررضی اللہ عنہ نے آپ کی آہٹ سن لی، وہ پیچھے ہٹنے لگے تو رسول اللہﷺ نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی جگہ کھڑے رہو، پھر رسول اللہﷺ آگے بڑے اور ابو بکررضی اللہ عنہ کی بائیں جانب بیٹھ گئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ بیٹھ کر لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابو بکررضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر۔ ابو بکررضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کی نماز کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر رہے تھے۔
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3099 ´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھروں اور ان گھروں کا انہی کی طرف منسوب کرنے کا بیان` «. . . وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ} وَ {لاَ تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلاَّ أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ} . . . .» ”. . . اور اللہ پاک نے (سورۃ الاحزاب میں) فرمایا «وقرن في بيوتكن» ”تم لوگ (ازواج مطہرات) اپنے گھروں ہی میں عزت سے رہا کرو۔“ اور (اسی سورۃ میں فرمایا کہ) «لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم» ”نبی کے گھر میں اس وقت تک نہ داخل ہو ‘ جب تک تمہیں اجازت نہ مل جائے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ: Q3099] «. . . أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:" لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي فَأَذِنَّ لَهُ . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ (مرض الوفات میں) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بہت بڑھ گیا ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں سے اس کی اجازت چاہی کہ مرض کے دن آپ میرے گھر میں گزاریں۔ لہٰذا اس کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گئی تھی۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ: 3099] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3099 باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا نُسِبَ مِنَ الْبُيُوتِ إِلَيْهِنَّ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ باب میں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارک میں جس طور پر اور جن جن ازواج کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابیات و حجرات عطا کئے وہ آپ کی وفات کے بعد بھی اسی حالت میں رہے اور ان میں کسی قسم کا کوئی ورثہ تقسیم نہ ہوا۔ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وجه دخول الترجمة فى الفقه، أن سكناتهن فى بيوت النبى صلى الله عليه وسلم من الخصائص كما استحققن النفقة، و السر فى ذالك حبسهن عليه أبدا.» [المتواري، ص: 186] یعنی ترجمۃ الباب سے یہ بات ثابت کرنی مقصود ہے کہ امہات المومنین رضی اللہ عنہن اپنے گھروں میں رہنے کی مستحق ہیں جیسے کہ آپ کے نفقہ وغیرہ، اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں داخل ہے (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امہات المومنین رضی اللہ عنہن اپنی اپنی رہائش گاہ میں رہیں)۔ التاودی بن سودۃ فرماتے ہیں: «وقال الطبري: قيل كان النبى صلى الله عليه وسلم ملك كل من أزواجه البيت الذى كانت فيه فسكن بعده ذالك التمليك، و قيل: أنما لم ينازعن فيهن» [حاشية التاودي بن سودة، ج 3، ص 271] یعنی یہ کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام ازواج کی ملکیت میں وہ مسکن دیئے تھے جس میں وہ رہائش پذیر تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اسی ملکیت کے ساتھ انہوں نے رہائش رکھی، تاکہ ان میں کسی قسم کا کوئی تنازعہ نہ ہو۔ ترجمۃ الباب اور قرآن مجید کی آیات میں مناسبت ظاہر ہے۔ پہلی آیت میں گھروں کی نسبت امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی طرف کی گئی اور دوسری آیت میں گھروں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔ یعنی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرمارہے ہیں کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نفقہ کا خرچ تھا بعین اسی طرح سے آپ کی وفات کے بعد امہات المومنین رضی اللہ عنہن کا اپنے گھروں پر بھی حق تھا، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ امہات المومنین رضی اللہ عنہن کو مسلمانوں کی مائیں قرار دیا گیا ہے اور کسی اور سے ان کا نکاح قیامت تک کے لئے حرام کر دیا گیا ہے۔ ترجمۃ الباب کے بعد آیات اور اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی احادیث کا ذکر فرمایا جن سے آپ یہ استدلال فرما رہے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کو ان کی ازواج کے ساتھ منسلک فرمایا گیا ہے۔ پہلی حدیث امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جس میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ تمام بیویوں سے اجازت لی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں دن گزار دیں، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے وقت کا واقعہ ہے اس حدیث میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے گھر کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «مطابقة لما ترجم له هنا فى قولها: فى بيتي . . . . .» [ارشاد الساري، ج 5، ص: 467] ”باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میرے گھر میں . . . . .۔“ دوسری حدیث ذکر فرمائی وہ بھی امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں وفات پائی۔ امام قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ: امی عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمانا: «توفي النبى صلى الله عليه وسلم فى بيتي» کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں وفات پائی۔“ یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔ [ارشاد الساري، ج 5، ص: 478] تیسری حدیث جو کہ امی صفیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اس میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ «عند باب ام سلمة زوج النبى صلى الله عليه وسلم» کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے قریب پہنچے، امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا مطلب یوں واضح کیا کہ دروازے کو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا دروازہ کہا۔ چوتھی حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اس میں الفاظ یوں ہیں: «ارتقيت فوق بيت حفصة» کہ میں ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کے اوپر چڑھا۔ پانچویں حدیث ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جس میں یہ الفاظ موجود ہیں: «لم تخرج من حجرتها» دھوپ ابھی ان کے حجرے میں باقی رہتی، یہاں بھی امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے (گھر) کا ذکر آیا، یہیں سے ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت قائم ہے۔ چھٹی حدیث سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں ہے: «فأشار نحو مسكن عائشة» کے الفاظ ہیں جس میں مسکن کا لفظ ہے جس سے بایں طور پر ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت قائم ہو رہی ہے۔ ان تمام احادیث میں «مسكن، بيت/حجر» کے الفاظ وارد ہوئے ہیں جو کہ باب کے ساتھ واضح مناسبت رکھتے ہیں۔ فائدہ: بعض لا علم حضرات انہی بے علمی اور نا سمجھی کی وجہ سے احادیث صحیحہ پر طعن کرتے نظر آتے ہیں، حدیث کے پس منظر سے ناواقفیت اور غلط زاویے میں اس کا مطالعہ کئی اعتراضات کے جنم کا ذریعہ بنتا ہے۔ بعین اسی طرح سے مذکورہ بالا حدیث جس کے راوی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ فتنے یہاں سے برپا ہوں گے۔ لہذا بعض لا علم اور انکار حدیث کی طرف میلان رکھنے والے حضرات نے اس پر اعتراض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کو بھی فتنہ قرار نہیں دے سکتے؟ لہذا یہ ام المومنین رضی اللہ عنہا پر کسی نے طعن کے غرض سے یہ جھوٹی حدیث گھڑ دی ہے۔ مندرجہ بالا حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی مقامات پر ذکر فرمایا: ① کتاب بدء الخلق، باب صفت ابلیس و جنودہ، ر قم: 3279۔ ② کتاب المناقب، رقم: 3511۔ ③ کتاب الطلاق، باب الاشارۃ فی الطلاق، رقم: 5296۔ ④ کتاب الفتن، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الفتنۃ من قبل المشرق، رقم: 7092۔ ان ابواب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے مندرجہ بالا حدیث کو کہیں مختصر تو کہیں طویل ذکر فرمایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کی طرف اشارہ اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ (نعوذ باللہ) فتنہ کا ممبر و سرچشمہ مسکن عائشہ رضی اللہ عنہا ہے بلکہ یہ اشارہ اس لئے تھا کہ جس جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے اس کے مشرق کی طرف عراق کا رخ تھا اور مسکن عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ مشرق کی جانب تھا، یہی مطلب ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا جس میں مسکن عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارے کا ذکر ہے، بلکہ ایک واضح حدیث جس کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر فرمائی، آپ لکھتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نقل فرماتے ہیں کہ جب آپ نے اہل عراق والوں کو مخاطب فرمایا تو کہا: «سمعت أبى يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يشير بيده نحو المشرق ويقول: ان الفتنة تجئ من وهنا و أوما بيده نحو المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان» [فتح الباري، ج 14، ص: 40] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرماتے تھے مشرق کی جانب اور فرما رہے تھے: ”یہیں سے شیطان کے سینگ نمودار ہوں گے۔“ مذکورہ حدیث میں امام مسلم رحمہ اللہ نے عراق والوں کو مخاطب فرما کر واضح اس حدیث کا مصداق عراق کو ٹھہرایا نہ کہ مسکن عاشہ رضی اللہ عنہا کو۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «”هنا الفتنه“ إلى جانب المشرق و هو العراق و هذا مثار الفتنة» [عمدة القاري، ج 15، ص: 47] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا: ”فتنہ یہاں ہے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ فرمانا (امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسکن کے لئے نہیں بلکہ) مشرق کی جانب ہے جو کہ عراق ہی ہے اور یہی مثار ہے فتنہ کا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عراق کے فتنہ پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «كان اهل المشرق يومئذ أهل كفر فأخبره صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك ناحية فكان كما أخبرو أول الفتن كان من قبل المشرق و كان ذالك سببا للفرقة بين المسلمين، و ذالك مما يحبه الشيطان و يفرح به، وكذالك البدع نشأت من تلك الجهة.» [فتح الباري، ج 14، ص: 41] ”یعنی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں) اہل مشرق (عراق) اہل کفر تھے جس کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی کہ فتنہ اس طرف سے ہو گا، پس اسی طرح ہوا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، سب سے پہلا فتنہ مشرق کی جانب سے ہوا جس کی پاداش میں دو مسلمانوں کے فرقے وجود میں آئے اور اس سبب پر شیطان بہت خوش ہوا اور اس کو پسند کیا، اسی طرح سے بدعت کی ابتداء بھی اسی جگہ سے ہوئی۔“ حافظ صاحب کے اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ آپ بدعت اور کفر کا سرچشمہ عراق کی سر زمین کو ٹھہرا رہے ہیں، حقیقتا اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ذی شعور پر عیاں ہو گا کہ کوفہ (عراق) کی سرزمین پر کئی ایک فتنے نمودار ہوئے جنہوں نے اسلام دشمنی میں کسی قسم کی کوئی کسر نہ چھوڑی، مثلا: ① عبداللہ بن سبا یہودی کا فتنہ جس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں سر اٹھایا، اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ناپاک عزائم اور شرک کی غلاظت کے ساتھ اپنی دعوت کو لوگوں تک پہنچایا۔ ② اسی غلیظ عقائد کی پاداش میں رافضی فرقہ وجود میں آیا۔ ان عقائد کی بنیاد عبد اللہ بن سبا نے کوفہ میں رکھی۔ ③ خوارجی فرقہ نے بھی اپنا سر کوفہ سے اٹھایا۔ ④ معتزلہ فرقہ بھی کوفہ سے اٹھا۔ ⑤ مرجئہ فرقہ بھی کوفہ سے اٹھا۔ ⑥ قدریہ فرقہ بھی کوفہ سے اٹھا۔ ⑦ جبریہ فرقہ بھی کوفہ سے ہی اٹھا۔ ⑧ اباحیہ فرقہ بھی کوفہ ہی سے اٹھا۔ ⑨ اور اہل رائے بھی اسی جگہ سے اٹھے۔ ⑩ کوفہ میں 276ھ میں ایک ایسا فتنہ نمودار ہوا کہ شراب اور زنا کو جائز قرار دیا، یہاں تک نہیں بلکہ ستم یہ ہوا کہ محرمات کے ساتھ بھی زنا کو جائز قرار دیا گیا۔ عراق کی سر زمین پر زنا، قتل عام، لوٹ مار یہ تمام جرائم کی فہرست طویل ہے، یہاں تک کہ بیت اللہ سے حجر اسود کو بھی نکال دیا گیا، جو کہ ایک طویل عرصے تک حجر اسود کو بیت اللہ سے محروم رکھا گیا، اس کی مدت تقریبا بیس سال کے لگ بھگ ہے، اس کے بعد بھی یہ فتنہ بڑھتا گیا حتی کہ حجاج کا قتل ہوا، کوفہ اور عراق سے شیعیت کا فتنہ اتنا عروج پر پہنچا کہ خلافت اسلامیہ کو شدید نقصان ہوا، مزید یہ فتنہ آگے چلا کہ بغداد میں قیامت کبری قائم ہو گئی کہ ساٹھ ملین کے قریب لوگوں کو ذبح کر دیا گیا، یہ فتنہ بڑھتا گیا یہاں تک کہ ہمارے زمانے میں آن پہنچا، آپ دیکھ سکتے ہیں ایران اور خلیج کی لڑائی میں کئی جانیں ضائع ہوئیں جس کا شمار اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے، اور آج یہ خوارج کا فتنہ دوبارہ کوفہ اور عراق سے نمودار ہوا ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں نہیں ہزاروں ایمان والوں کے عقائد برباد ہو گئے۔ لہذا اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ فتنے کی جگہ مشرقی جانب عراق کو کہا گیا ہے نہ کہ مسکن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو۔ امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «نجد من جهة المشرق، و من كان بالمدينة كان نجده بادية العراق و نواحيها. وهى مشرق أهل المدينة.» [فتح الباري، ج 6، ص: 162] لہذا امام خطابی رحمہ اللہ نے بھی واضح کیا کہ نجد سے مراد عراق ہے جو مدینہ کے مشرق میں ہے۔ تنبیہ: لغت کے اعتبار سے نجد زمین کے اس حصے کو کہا جاتا ہے جو اوپر ہو اور اس کا مقابل غدر ہے جو پست زمین ہے۔ «أصل النجد ما ارتفع من الأرض و هو خلاف الغد رفانه ما انخفض منها» لہذا یہ معلوم ہونا چاہے کہ ایک نجد یمامہ ہے اور دو سرا نجد عراق ہے، حدیث میں جو الفاظ نجد کے لئے وارد ہوئے ہیں وہ نجد عراق ہے نہ کہ نجد یمامہ، بعض مفسدین اور حاسدین اپنے مذموم عقائد کے دفاع کے لئے شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کو نجدی کہہ کر انہیں فتنہ کا موجب قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ بات صرف بہتان ہے کیونکہ آپ کا تعلق نجد عراق سے ہرگز نہیں ہے۔ عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 451