You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام مسلم بن الحجاج النيسابوري
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ بِلَالِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَمْنَعُوا النِّسَاءَ حُظُوظَهُنَّ مِنَ الْمَسَاجِدِ، إِذَا اسْتَأْذَنُوكُمْ» فَقَالَ بِلَالٌ: وَاللهِ، لَنَمْنَعُهُنَّ. فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللهِ: " أَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقُولُ أَنْتَ: لَنَمْنَعُهُنَّ "
Ibn Umar reported: The Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Do not deprive women of their share of the mosques, when they seek permission from you. Bilal said: By Allah, we would certainly prevent them. 'Abdullah said: I say that the Messenger of Allah ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said it and you say: We would certainly prevent them!
(خود) بلال بن عبد اللہ بن عمر نے اپنے والد حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ عورتوں کو، جب وہ تم سے اجازت طلب کریں تو مسجدوں میں جو ان کے حصے ہیں ان (کے حصول) سے (انہیں) نہ روکو۔‘‘ بلال نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ان کو ضرور روکیں گے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اور تو کہتا ہے: ہم انہیں ضرور روکیں گے!
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 899 ´اس شخص پر جو نماز جمعہ میں حاضر نہ ہو تو کیا اس پر غسل ہے` «. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" ائْذَنُوا لِلنِّسَاءِ بِاللَّيْلِ إِلَى الْمَسَاجِدِ . . .» ”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں آنے کی اجازت دے دیا کرو . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجُمُعَةِ: 899] فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ اس شخص پر جو نماز جمعہ میں حاضر نہ ہو تو کیا اس پر غسل ہے۔۔۔ اور حدیث پیش کرتے ہیں کہ عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے مت روکیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کو رات کی نماز میں آنے کی اجازت دی جا رہی ہے اور دن کی نماز میں آنا ثابت نہیں ہو رہا ہے اسی طرح سے دن کی نماز میں جمعہ کی نماز بھی شامل ہے تو جب دن کی نماز میں نہ آنا ثابت ہو رہا ہے تو بالاولیٰ جمعہ بھی دن کی ہی نمازوں میں شامل ہے اور جب عورت جمعہ کی نماز میں نہیں آ رہی تو وہ غسل بھی نہیں کرے گی یعنی غسل کرنا اس کے لیے ضروری نہ ٹھہرا جو جمعہ کے لیے نا جائے۔ یہی مراد ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب اور حدیث سے۔ ◈ امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں . «فان قيل مفهوم التقييد بالليل يمنع النهار والجمعة نهارية» ”پس یہ کہا گیا ہے کہ (عورتوں کا مسجد میں جانا) مقید ہے رات کے ساتھ اور جمعہ کی نماز دن کی نماز ہے۔“ ◈ الشیخ ابی القاسم البنارسی رحمہ اللہ مندرجہ بالا حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے کس لطف سے استنباط کیا ہے کہ اس کے بیان کے لیے میرے پاس زبان نہیں ہے۔۔۔ اثرا عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بتلاتے ہیں کہ اس سے عورتوں کے حضور جماعت کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات میں ثابت ہوتی ہے نہ دن میں اور نماز جمعہ چونکہ دن کو ہوتی ہے لہٰذا اس وقت ان کو حضور مسجد کی اجازت نہیں ہے اور جب ان پر جمعہ نہیں تو غسل بھی نہیں۔ [الخذي العظيم ص8] ◈ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ عورتوں اور بچوں پر جمعہ کے لیے آنا واجب نہیں ہے جب ان پر جمعہ واجب نہیں تو پھر غسل کا حکم بھی نہیں۔“ [التوضيح، ج8، ص458] ◈ امام ابن المنذر رحمہ اللہ اس بات پر اجماع نقل فرماتے ہیں کہ: «أجمع أئمة الفتويٰ على أنه لا جمعة على النساء والصبيان» [الاجماع لابن المنذر، ص44] ”تمام ائمہ فتویٰ کا اس پر اجماع ہے کہ جمعہ عورتوں اور بچوں پر فرض نہیں ہے۔“ ◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «في حديث أبى هريرة رضى الله عنه ”حق على كل مسلم أن يغتسل“ فانه شامل للجميع، والتقييد فى حديث ابن عمر بمن جاء منكم يخرج من لم يجي . . .» [فتح الباري، ج2، ص221] ”یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کا غسل ہر مسلمان پر واجب ہے اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کی آئندہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو آدمی جمعہ میں حاضر نہ ہو اس پر غسل واجب نہیں اور ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نابالغ لڑکے پر جمعہ کا غسل واجب نہیں اور عورتوں کو رات کے وقت مسجد میں جانے سے نہ منع کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ جمعہ ان پر واجب نہیں ورنہ رات کی قید لگانے کے کوئی معنی نہ تھے۔ لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد ترجمۃ الباب سے یہ ہے کہ غسل جمعہ کا صرف اسی شخص کے لیے ہے جس پر جمعہ واجب ہو۔ فائدہ نمبر1: امام بخاری رحمہ اللہ کا باب قائم کرنا اور اس ضمن میں احادیث کا پیش کرنا ہرگز اس بات کی مانع نہیں کہ عورتیں رات اور فجر کی نماز کے علاوہ دن کی نمازوں میں مسجد نہ جایا کریں کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے ان احادیث میں اس حدیث کو بھی درج کیا ہے۔ «لا تمنعوا اماء الله مساجد الله» ”کہ عورتوں کو مسجد میں آنے سے مت روکو۔“ یہ حدیث اس بات پر دال ہے کہ عورتیں مسجد آ سکتی ہیں کسی بھی نماز کے لیے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود صرف یہ تھا کہ جمعہ ان پر واجب نہیں ورنہ رات کی قید لگانے کو کوئی مضر نہیں ہیں کیوں کہ مطلق احادیث اس مسئلے پر موجود ہیں۔ ◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ: ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جو حدیث ہے کہ ”عورتوں کو رات کی نماز کے لیے اجازت دے دو۔“ تو اس سے یہ مراد ہے کہ اجازت ان کے لیے رات کی نماز میں ہے اور جمعہ اس میں داخل نہیں ہے اور دوسری روایت جو اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کے خلاف ہے (یعنی وہ مقید ہے اور اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث مطلق ہے) کہ ”تم مت روکو اللہ کی بندیوں کو مسجد میں آنے سے۔“ [فتح الباري ج2 ص487] ◈ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے تحت امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اس حدیث میں یہ فقہ ہے کہ عورت کے لیے رات کو مسجد جانا جائز ہے اور اس (کے عموم) میں ہر نماز داخل ہے۔“ [التمهيد ج24 ص281] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں خواتین نماز کے لیے مسجد جایا کرتی تھیں شارع علیہ السلام نے انہیں ہرگز نہیں روکا اور نہ ہی کسی صحابی نے اپنی خواتین کو مسجد جانے سے روکا بلکہ اگر کوئی روکتا تو وہ اس کی مخالفت کرتے جیسا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے کا قصہ معروف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابیات کا مساجدوں میں نماز ادا کرنا: ➊ ”امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھاتے تو عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی جاتی تھیں اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتیں۔“ [صحيح البخاري 868] ➋ سیدہ زینب الثقفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم عورتوں میں سے کوئی عورت عشاء کی نماز کے لیے مسجد آئے تو خوشبو نہ لگائے۔“ [صحيح مسلم 443] ➌ عورتوں کو مسجدوں سے منع نہ کرو اور انہیں بغیر خوشبو کے سادہ لباس میں جانا چاہیے۔ [مسند أحمد ج2 ص438 ح9645] ➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عورتوں! جب مرد سجدہ کریں تو تم اپنی نظروں کی حفاظت کرو۔“ [صحيح ابن خزيمه 1694 سنده صحيح] ➎ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خواتین کو حکم دیا جاتا کہ مردوں سے پہلے (سجدے، رکوع سے) سر نہ اٹھائیں۔ [صحيح ابن حبان 2216] ➏ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی عشاء کے لیے جاتیں مگر عمر رضی اللہ عنہ انہیں روکتے تھے۔ [صحيح البخاري: 900] ➐ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب عورتیں فرض نماز کا سلام پھیریں تو اٹھ کھڑی ہوتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مرد (صحابہ کرام) بیٹھے رہتے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو صحابہ بھی کھڑے ہو جاتے۔ [صحيح البخاري 866] ➑ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عورتوں کی بہترین صف آخری صف ہے اور سب سے بری صف پہلی ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه رقم 624] ➒ ایک خاتون نے نذر مانی تھی کہ اگر اس کا شوہر جیل سے باہر آ گیا تو وہ بصرے کی ہر مسجد میں دو رکعتیں ادا کرے گی۔ [ابن ابي شيبه رقم 7617] ➓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نماز میں داخل ہوتا ہوں اور لمبی نماز پڑھنے کا ارادہ کرتا ہوں پھر میں کسی بچے کی رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے رونے کی وجہ سے اس کی ماں کو تکلیف ہو گی۔“ [صحيح مسلم 470] ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دینا مشروع ہے اور انہیں بلاعذر روکنا درست نہیں اگر وہ اجازت مانگیں۔ فائدہ نمبر2: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے لیکن چند شرائط کے ساتھ کہ خواتین کو مطلق انکار کرنا کہ وہ مساجدوں میں نہ جائیں تو یہ درست نہیں ہے کیوں کہ کئی ایک آثار موجود ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عورتیں مساجد میں جا سکتی ہیں مطلق فتنہ اور فساد کا نام دے کر اپنے مذہب کی بات کو ثابت کرنا درست نہیں کیوں کہ پہلے مشروع ہونا ثابت ہو گا پھر اس کے بعد اس کی شرائط کا ذکر کیا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی نماز ان کے گھروں میں افضل قرار دی ہے۔ جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ”تم نہ روکو اللہ کی بندیوں کو مسجد جانے سے اور ان کے گھر بہتر ہیں ان کے لیے۔ مندرجہ بالا حدیث نے واضح کیا کہ عورتوں کی نماز گھر میں افضل ہے لیکن اس کے باوجود اگر فتنہ کا ڈر نہ ہو تو وہ مسجد میں نماز ادا کرنے آ سکتی ہیں۔ مگر چند شرائط کے ساتھ۔ ➊ یہ اعتقاد رکھے کہ اس کا گھر افضل ہے اس کے لیے نماز کے واسطے۔ ➋ اپنے خاوند سے اجازت طلب کرے۔ ➌ کسی قسم کی کوئی خوشبو عطر وغیرہ کااستعمال ہرگز نہ کریں ➍ اور بغیر کسی خوشبو کے ➎ مردوں کے ساتھ قبار نہ باندھے۔ ➏ امام کے سلام پھیرتے ہی عورتیں گھروں کو آ جائیں (یعنی وہاں نہ بیٹھے تاکہ مردوں سے اختلاط سے بچے۔) ➐ راستے میں مردوں سے اختلاط سے بچے۔ ➑ راستے کے وسط میں نہ چلے۔ ➒ اور اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اس کی صف آخری صف بہتر ہے۔ ➓ وہ عورت حجاب کے ساتھ نکلے۔ ديكهئے تفصيل كے ليے: [الدين الخالص لشيخ امين الله بشاروي، ج5 ص180] عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 207