You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَارُ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ يُنْتَظَرُ بِهِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرَ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ وَقَدْ تَكَلَّمَ شُعْبَةُ فِي عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ مِنْ أَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ وَعَبْدُ الْمَلِكِ هُوَ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَكَلَّمَ فِيهِ غَيْرَ شُعْبَةَ مِنْ أَجْلِ هَذَا الْحَدِيثِ وَقَدْ رَوَى وَكِيعٌ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ هَذَا الْحَدِيثَ وَرُوِي عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ مِيزَانٌ يَعْنِي فِي الْعِلْمِ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ أَحَقُّ بِشُفْعَتِهِ وَإِنْ كَانَ غَائِبًا فَإِذَا قَدِمَ فَلَهُ الشُّفْعَةُ وَإِنْ تَطَاوَلَ ذَلِكَ
Narrated Jabir: that the Messenger of Allah (ﷺ) said: The neighbor has more right to his preemption. He is to be waited for even if he is absent, when their paths are the same.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کازیادہ حق دار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیاجائے گا ۱؎ اگر چہ وہ موجودنہ ہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم عبدالملک بن سلیمان کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے ہیں جس نے اس حدیث کو عطاء سے اورعطاء نے جابر سے روایت کی ہو،۲- شعبہ نے عبدالملک بن سلیمان پراسی حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے۔ محدّثین کے نزدیک عبدالملک ثقہ اور مامون ہیں، شعبہ کے علاوہ ہم کسی کونہیں جانتے ہیں جس نے عبدالملک پر کلام کیا ہو، شعبہ نے بھی صرف اسی حدیث کی وجہ سے کلام کیا ہے۔اوروکیع نے بھی یہ حدیث شعبہ سے اور شعبہ نے عبدالملک بن ابی سلیمان سے روایت کی ہے۔اور ابن مبارک نے سفیان ثوری سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: عبدالملک بن سفیان میزان ہیں یعنی علم میں، ۲- اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے کہ آدمی اپنے شفعہ کا زیادہ حق دارہے اگرچہ وہ غائب ہی کیوں نہ ہو، جب وہ (سفر وغیرہ) سے واپس آئے گا تو اس کو شفعہ ملے گا گرچہ اس پر لمبی مدّت گزرچکی ہو۔
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ غیر حاضر شخص کا شفعہ باطل نہیں ہوتا، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے، اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ ” جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا “۔