You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ اللُّقَطَةِ فَقَالَ عَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا وَإِلَّا فَاعْرِفْ وِعَاءَهَا وَعِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا وَعَدَدَهَا ثُمَّ كُلْهَا فَإِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَالْجَارُودِ بْنِ الْمُعَلَّى وَعِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَابِ هَذَا الْحَدِيثُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ وَرَخَّصُوا فِي اللُّقَطَةِ إِذَا عَرَّفَهَا سَنَةً فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يُعَرِّفُهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا تَصَدَّقَ بِهَا وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ لَمْ يَرَوْا لِصَاحِبِ اللُّقَطَةِ أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا إِذَا كَانَ غَنِيًّا و قَالَ الشَّافِعِيُّ يَنْتَفِعُ بِهَا وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا لِأَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ أَصَابَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعَرِّفَهَا ثُمَّ يَنْتَفِعَ بِهَا وَكَانَ أُبَيٌّ كَثِيرَ الْمَالِ مِنْ مَيَاسِيرِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعَرِّفَهَا فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْكُلَهَا فَلَوْ كَانَتْ اللُّقَطَةُ لَمْ تَحِلَّ إِلَّا لِمَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ لَمْ تَحِلَّ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ لِأَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَصَابَ دِينَارًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَّفَهُ فَلَمْ يَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهُ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَكْلِهِ وَكَانَ لَا يَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا كَانَتْ اللُّقَطَةُ يَسِيرَةً أَنْ يَنْتَفِعَ بِهَا وَلَا يُعَرِّفَهَا و قَالَ بَعْضُهُمْ إِذَا كَانَ دُونَ دِينَارٍ يُعَرِّفُهَا قَدْرَ جُمْعَةٍ وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ
Zaid bin Khalid Al-Juhni narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) was asked about the lost item. He said: Make a public announcement about it for one year, if it is claimed then give it to him. Otherwise remember its sack, string, and its count. Then use it, and if its owner comes, give it to him.
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے لقطہ (گری پڑی چیز)کے بارے میں پوچھاگیاتو آپ نے فرمایا: سال بھراس کی پہچان کراؤ ۱؎ ، اگرکوئی پہچان بتادے تواسے دے دو، ورنہ اس کے ڈاٹ اورسربندکو پہچان لو، پھر اُسے کھاجاؤ۔ پھرجب اس کا مالک آئے تو اُسے ادا کردو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن خالد کی حدیث اس طریق سے حسن غریب ہے، ۲- احمدبن حنبل کہتے ہیں: اس باب میں سب سے زیادہ صحیح یہی حدیث ہے، ۳- یہ ان سے اوربھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔ یہ لوگ لقطہ سے فائدہ اٹھانے کوجائز سمجھتے ہیں،جب ایک سال تک اس کا اعلان ہوجائے اور کوئی پہچاننے والانہ ملے ۔ شافعی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۵- اورصحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ ایک سال تک لقطہ کا اعلان کرے اگر اس کا مالک آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسے صدقہ کردے۔سفیان ثوری اور عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے۔اوریہی اہل کوفہ کابھی قول ہے،۶- لقطہ اٹھانے والا جب مالدار ہوتو یہ لوگ لقطہ سے فائدہ اٹھانے کو اس کے لیے جائز نہیں سمجھتے ہیں،۷- شافعی کہتے ہیں: وہ اس سے فائدہ اٹھائے اگرچہ وہ مال دار ہو، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ابی بن کعب کو ایک تھیلی ملی جس میں سو دینار تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اس کا اعلان کریں پھر اس سے فائدہ اٹھائیں، اور ابی بن کعب صحابہ میں خوشحال لوگوں میں تھے اوربہت مالدارتھے، پھربھی نبی اکرمﷺنے انہیں پہچان کرانے کا حکم دیا اور جب کوئی پہچاننے والا نہیں ملا تو آپﷺنے انہیں کھاجانے کا حکم دیا۔ ( دوسری بات یہ کہ) اگر لقطہ صرف انہیں لوگوں کے لیے جائز ہوتا جن کے لیے صدقہ جائز ہے توعلی کے لیے جائز نہ ہوتا، اس لیے کہ علی کو نبی اکرمﷺکے زمانہ میں ایک دینار ملا،انہوں نے(سال بھرتک)اُس کی پہچان کروائی لیکن کوئی نہیں ملا جواسے پہچانتا تو نبی اکرمﷺنے انہیں کھا جانے کا حکم دیا حالاں کہ ان کے لیے صدقہ جائز نہیں تھا،۸- بعض اہل علم نے رخصت دی ہے کہ جب لقطہ معمولی ہو تو لقطہ اٹھانے والا اس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے اوراس کا پہچان کرواناضروری نہیں ۲؎ ،۹- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب وہ ایک دینارسے کم ہوتووہ اس کی ایک ہفتہ تک پہچان کروائے۔ یہ اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا قول ہے،۱۰- اس باب میں ابی بن کعب ، عبداللہ بن عمرو، جارود بن معلی، عیاض بن حمار اور جریر بن عبداللہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎ : باب کی ان دونوں روایتوں میں ایک سال پہچان کرانے کا ذکر ہے اور باب کی آخری حدیث میں تین سال کا ذکر ہے، یہ سامان اور حالات پر منحصر ہے، یا ایک سال بطور وجوب اور تین سال بطور استحباب وورع ہے ان روایتوں کا اختلاف تضاد کا اختلاف نہیں کہ ایک کو ناسخ اور دوسرے کو منسوخ قرار دیا جائے، پہچان کرانے کی صورت یہ ہو گی کہ بازار اور اجتماعات میں جہاں لوگوں کا ہجوم ہو اعلان کیا جائے کہ گمشدہ چیز کی نشانی بتا کر حاصل کی جا سکتی ہے، اگر کوئی اس کی نشانی بتا دے تو مزید شناخت اور گواہوں کی ضرورت نہیں بلا تأمل وہ چیز اس کے حوالے کر دی جائے۔ ۲؎ : اس کی دلیل ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «إني لأنقلب إلى أهلي فأجد التمرة ساقطة على فراشي فأرفعها لآكلها ثم أخشى أن تكون صدقة فألقيها» یعنی ” میں کبھی گھر میں جاتا ہوں تو کھجور کا کوئی دانہ ملتا ہے، اس کو کھا لینا چاہتا ہوں، پھر خیال آتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ و زکاۃ کا نہ ہو، تو اسے پھینک دیتا ہوں “، اس سے ثابت ہوا کہ آپ نے اس کو پہچان کروانے کا کام کیے بغیر کھا لینے کا ارادہ کیا۔