You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنَا نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ الْمُسْلِمُونَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَجْتَمِعُونَ فَيَتَحَيَّنُونَ الصَّلَوَاتِ وَلَيْسَ يُنَادِي بِهَا أَحَدٌ فَتَكَلَّمُوا يَوْمًا فِي ذَلِكَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَى وَقَالَ بَعْضُهُمْ اتَّخِذُوا قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْيَهُودِ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَوَلَا تَبْعَثُونَ رَجُلًا يُنَادِي بِالصَّلَاةِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بِلَالُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ
Ibn Umar narrated: When the Muslims arrived in AI-Madinah, they used to assemble for the Salat, and guess the time for it there was no one who called for it (the prayer). One day they discussed that and some of them said that they should use a bell like the bell the Christians use. Others said they should use a trumpet like the horn the Jews use. But Umar [bin Al-Khattab] said: 'Wouldn't it better if we had a man call for the prayer?' He said: So Allah's Messenger said: 'O Bilal! Stand up and call for the Salat.'
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جس وقت مسلمان مدینہ آئے تووہ اکٹھے ہوکر اوقاتِ صلاۃ کا اندازہ لگاتے تھے، کوئی صلاۃ کے لیے پکار نہ لگاتا تھا، ایک دن ان لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی ۱؎ چنانچہ ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: نصاریٰ کے ناقوس کی طرح کوئی ناقوس بنالو، بعض نے کہا:کہ تم یہودیوں کے قرن کی طرح کوئی قرن(یعنی کسی جانور کا سینگ) بنالو۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اس پرعمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم کوئی آدمی نہیں بھیج سکتے جو صلاۃ کے لیے پکارے۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: بلال اٹھو جاؤ صلاۃ کے لیے پکارو۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کی (اُس) روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔(جسے بخاری ومسلم اور دیگرمحدثین نے روایت کیا ہے) 2؎ ۔
وضاحت: ۱؎ : یہ گفتگو مدینہ میں صحابہ کرام سے ہجرت کے پہلے سال ہوئی تھی، اس میں بعض لوگوں نے نماز کے لیے ناقوس بجانے کا اور بعض نے اونچائی پر آگ روشن کرنے کا اور بعض نے «بوق» ” بگل “ استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا، اسی دوران عمر کی یہ تجویز آئی کہ کسی کو نماز کے لیے پکارنے پر مامور کر دیا جائے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ رائے پسند آئی اور آپ نے بلال کو باواز بلند «الصلاة جامعة» کہنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد عبداللہ بن زید رضی الله عنہ نے خواب میں اذان کے کلمات کسی سے سیکھے اور جا کر خواب بیان کیا، اسی کے بعد موجودہ اذان رائج ہوئی۔ ۲؎ : دیکھئیے صحیح البخاری حدیث ۶۰۴وصحیح مسلم حدیث ۸۳۷۔