You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ قَالَ أَوَّلُ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ قَالَ فَخَرَجْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَتَّى أَتَيْنَا الْمَدِينَةَ فَقُلْنَا لَوْ لَقِينَا رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا أَحْدَثَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ قَالَ فَلَقِينَاهُ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَهُوَ خَارِجٌ مِنْ الْمَسْجِدِ قَالَ فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي قَالَ فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ وَيَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَأَنَّ الْأَمْرَ أُنُفٌ قَالَ فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي مِنْهُمْ بَرِيءٌ وَأَنَّهُمْ مِنِّي بُرَءَاءُ وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا قُبِلَ ذَلِكَ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُ فَقَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَلْزَقَ رُكْبَتَهُ بِرُكْبَتِهِ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِيمَانُ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ فَمَا الْإِسْلَامُ قَالَ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَإِقَامُ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ وَحَجُّ الْبَيْتِ وَصَوْمُ رَمَضَانَ قَالَ فَمَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ قَالَ فِي كُلِّ ذَلِكَ يَقُولُ لَهُ صَدَقْتَ قَالَ فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ قَالَ فَمَتَى السَّاعَةُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَمَا أَمَارَتُهَا قَالَ أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ أَصْحَابَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ قَالَ عُمَرُ فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ بِثَلَاثٍ فَقَالَ يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنْ السَّائِلُ ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ كَهْمَسٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ وَفِي الْبَاب عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ نَحْوُ هَذَا عَنْ عُمَرَ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالصَّحِيحُ هُوَ ابْنُ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ
Narrated Abdullah bin Buraidah from Yahya bin Ya'mur who said: The first person to speak about Al-Qadar was Ma'bad Al-Juhani. He said: Humaid bin Abdur-Rahman Al-Himyari and I went out until we reached Al-Madinah, and we said: 'If we could only meet someone among the companions of the Prophet (ﷺ) so we could ask him about what those people have innovated. [He said:] So we met him - meaning Abdullah bin 'Umar - while he was leaving the Masjid. [He said:] My companion and I were on either side of him. [He said:] I thought my companion was going to leave the speaking to me so I said: O Abu Abdur-Rahman! There is a group of people who recite the Qur'an and seek knowledge, and they claim there is no Al-Qadar, and that the affair is left to chance.' He said: Whenever you meet those people, then tell them that I am not of them and they are not of me. By the One Whom Abdullah swears by! If one of them were to spend gold the like of Uhud (mountain) in charity, it would not be accepted from him until he believes in Al-Qadar; the good of it and the bad of it.' He said: Then he began to narrate, he said: 'Umar bin Al-Khattab said: We were with the Messenger of Allah when a man came with extremely white garments, and extremely black hair. He had no appearance of traveling visible on him, yet none of us recognized him. He came until he reached the Prophet (ﷺ). He put his knees up against his knees, and then said: O Muhammad! What is Iman?' He said 'To believe in Allah, His Angels, His, Books, His Messengers, the Day of Judgement, and Al-Qadar, the good of it and the bad of it.' He said: 'Then what is Islam?' He said: 'Testifying to La Ilaha Illallah, and that Muhammad is His servant and Messenger, establishing the Salat, giving the Zakat, performing Hajj to the House, and fasting (the month of) Ramadan.' He said: 'Then what is Ihsan?' He said 'That (is) you worship Allah as if you see Him, and although you do not see Him, He certainly sees you.' He said: 'For all of those he replied to him: 'You have told the truth.' He said: So we were amazed at him, he would ask, and then tell him that he is telling the truth. He said: 'Then when is the Hour?' He (ﷺ) said: 'The one being asked knows no more than the questioner.' He said: 'Then what are its signs?' He said: 'That the slave woman gives birth to her master, and that the naked, poor, and bare-footed shepherds rival each other in the height of the buildings.' 'Umar said: 'Then the Prophet (ﷺ) met me three days after that and said: 'O 'Umar! Do you know who the questioner was? It was Jibril. He came to teach you about the matters of your religion.'
یحیی بن یعمر کہتے ہیں: سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر کے انکار کی بات کی وہ معبد جہنی ہے، میں اور حمید بن عبدالرحمن حمیری دونوں(سفرپر) نکلے یہاں تک کہ مدینہ پہنچے ، ہم نے (آپس میں بات کرتے ہوئے) کہا:کاش ہماری نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات ہوجائے تو ہم ان سے اس نئے فتنے کے متعلق پوچھیں جو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے،چنانچہ ( خوش قسمتی سے) ہماری ان سے یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ جب وہ مسجد سے نکل رہے تھے ، ملاقات ہوگئی، پھر میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا ۱؎ میں نے یہ اندازہ لگاکرکہ میرا ساتھی بات کرنے کی ذمہ داری اور حق مجھے سونپ دے گا،عرض کیا: ابوعبدالرحمن !کچھ لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن میں غوروفکراور تلاش وجستجو (کا دعویٰ )بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے، اورامر( معاملہ) ازسرے نواور ابتدائی ہے ۲؎ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جب تم ان سے ملو (اور تمہارا ان کا آمناسامنا ہو) تو انہیں بتادو کہ میں ان سے بری (وبیزار)ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ، قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھاتاہے عبداللہ !(یعنی اللہ کی ) اگر ان میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابربھی سونا خرچ کرڈالے تو جب تک وہ اچھی اور بری تقدیر پرایمان نہیں لے آتا اس کا یہ خرچ مقبول نہ ہوگا، پھر انہوں نے حدیث بیان کرنی شروع کی اور کہا : عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اسی دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت زیادہ سفید تھے، اس کے بال بہت زیادہ کالے تھے، وہ مسافر بھی نہیں لگتا تھا اور ہم لوگوں میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبی اکرم ﷺ کے قریب آیااور اپنے گھٹنے آپ ﷺ کے گھٹنوں سے ملاکر بیٹھ گیا پھر کہا: اے محمد!ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اوراچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔ اس نے (پھر) پوچھا: اور اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے اور محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، صلاۃ قائم کرنا ، زکاۃ دینا، بیت اللہ شریف کا حج کرنا اور رمضان کے صیام رکھنا ، اس نے (پھر) پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اللہ کو دیکھنے کا تصور اپنے اندر پیدا نہ کرسکو تو یہ یقین کرکے اس کی عبادت کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہاہے، وہ شخص آپ ﷺ کے ہر جواب پر کہتا جاتاتھا کہ آپ نے درست فرمایا۔ اور ہم اس پر حیرت کرتے تھے کہ یہ کیسا عجیب آدمی ہے کہ وہ خود ہی آپ سے پوچھتاہے اور خود ہی آپ ﷺ کے جواب کی تصدیق بھی کرتاجاتاہے، اس نے (پھر) پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا: جس سے پوچھا گیا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، اس نے کہا: اس کی علامت (نشانی) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس وقت حالت یہ ہوگی کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۳؎ ، اس وقت تم دیکھو گے کہ ننگے پیر چلنے والے، ننگے بدن رہنے والے، محتاج بکریوں کے چرانے والے ایک سے بڑھ کر ایک اونچی عمارتیں بنانے میں فخر کرنے والے ہوں گے، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ مجھے اس واقعہ کے تین دن بعدملے تو آپ نے فرمایا: عمر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے۔ تمہارے پاس تمہیں دین کی بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے۔ اس سند سے بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اس سند سے بھی عمر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ متعدد سندوں سے ابن عمر سے بھی اسی طرح مروی ہے، ۳-کبھی ایسا بھی ہواہے کہ یہ حدیث ابن عمر کے واسطہ سے آئی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ابن عمر روایت کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ سے اور عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ سے،۲- اس باب میں طلحہ بن عبید اللہ، انس بن مالک اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎ : ایک ان کے داہنے ہو گیا اور دوسرا ان کے بائیں۔ ۲؎ : ” اور امر (معاملہ) از سرے نو اور ابتدائی ہے “ کا مطلب یعنی جب کوئی چیز واقع ہو جاتی ہے تب اللہ کو اس کی خبر ہوتی ہے، پہلے سے ہی کوئی چیز لکھی ہوئی اور متعین شدہ نہیں ہے۔ ۳؎ : یعنی لونڈی زادی مالکہ بن جائے گی اور جسے مالکہ کے مقام پر ہونا چاہیئے وہ لونڈی کے مقام ودرجہ پر پہنچا دی جائے گی۔