You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ بْنِ يُونُسَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا خَرَجَ مِنْ الْخَلاَءِ قَالَ: "غُفْرَانَكَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ عَنْ يُوسُفَ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ. وَأَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى - اسْمُهُ عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ الأشْعَرِيُّ -. وَلاَ نَعْرِفُ فِي هَذَا الْبَابِ إِلاَّ حَدِيثَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ ﷺ
Aishah, [may Allah be pleased with her] said: When the Prophet would exit the toilet he would say: 'Ghufranak.'
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ قضائے حاجت کے بعدجب پاخانہ سے نکلتے توکہتے: غفرانک (یعنی اے اللہ : میں تیری بخشش کا طلب گارہوں ۱؎ )۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے ۲؎ ،۲- اس باب میں عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی حدیث معروف ہے ۳؎
وضاحت: ۱؎ : ایسے موقع پر استغفار طلب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ” کھانا کھانے کے بعد اس کے فضلے کے نکلنے تک کی ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے بے انتہا انعامات میں سے ہیں جن کا شکر ادا کرنے سے انسان قاصر ہے، اس لیے قضائے حاجت کے بعد انسان اس کوتاہی کا اعتراف کرے، اس موقع کی دوسری دعا ” سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھ سے تکلیف دہ چیز کو دور کر دیا اور مجھے عافیت دی “ کے معنی سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ ۲؎ : یہ حدیث حسن غریب ہے، یہ ایک مشکل اصطلاح ہے کیونکہ حدیث حسن میں ایک سے زائد سند بھی ہو سکتی ہے جب کہ غریب سے مراد وہ روایت ہے جو صرف ایک سند سے آئی ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حدیث اپنے رتبے کے لحاظ سے حسن ہے اور کسی خارجی تقویت و تائید کی محتاج نہیں، اس بات کو امام ترمذی نے غریب کے لفظ سے تعبیر کیا ہے یعنی اسے حسن لذاتہ بھی کہہ سکتے ہیں، واضح رہے کہ امام ترمذی حسن غریب کے ساتھ کبھی کبھی دو طرح کے جملے استعمال کرتے ہیں، ایک «لانعرفه إلامن هذا الوجه» ہے، اور دوسرا «وإسناده ليس بمتصل» پہلے جملہ سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ حدیث صرف ایک طریق سے وارد ہوئی ہے اور دوسرے سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، یہاں حسن سے مراد وہ حسن ہے جس میں راوی متہم بالکذب نہ ہو، اور غریب سے مراد یہاں اس کا ضعف ظاہر کرنا ہے اور «إسناده ليس بمتصل» کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سند میں انقطاع ہے یعنی اس کا ضعف خفیف ہے۔ ۳؎ : یعنی اس باب میں اگرچہ اور بھی احادیث آئی ہیں لیکن عائشہ رضی الله عنہا کی مذکورہ بالا حدیث کے سوا کوئی حدیث قوی سند سے ثابت نہیں۔