You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو عيسى محمد بن عيسى الترمذي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَال سَمِعْتُ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ يُغْسَلُ الْإِنَاءُ إِذَا وَلَغَ فِيهِ الْكَلْبُ سَبْعَ مَرَّاتٍ أُولَاهُنَّ أَوْ أُخْرَاهُنَّ بِالتُّرَابِ وَإِذَا وَلَغَتْ فِيهِ الْهِرَّةُ غُسِلَ مَرَّةً قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا وَلَمْ يُذْكَرْ فِيهِ إِذَا وَلَغَتْ فِيهِ الْهِرَّةُ غُسِلَ مَرَّةً وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ
Abu Hurairah narrated that : the Prophet said: Wash the vessel the dog has drunk from seven times: the first or the last of them with dirt. And when the cat drinks out of it, wash it once.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: برتن میں جب کتامنہ ڈال دے تواسے سات بار دھویاجائے، پہلی بار یاآخری باراسے مٹی سے دھویاجائے ۱؎ ، اور جب بلی منہ ڈالے تو اسے ایک بار دھویاجائے۔امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اوریہی شافعی ، احمد اور اسحاق بن راہویہ کاقول ہے۔ ۳-ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث نبی اکرم ﷺ سے کئی سندوں سے اسی طرح مروی ہے جن میں بلی کے منہ ڈالنے پر ایک باردھونے کاذکرنہیں کیا گیا ہے،۳- اس باب میں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا اور ایک بار مٹی سے دھونا واجب ہے یہی جمہور کا مسلک ہے، احناف تین بار دھونے سے برتن کے پاک ہونے کے قائل ہیں، ان کی دلیل دارقطنی اور طحاوی میں منقول ابوہریرہ رضی الله عنہ کا فتویٰ ہے کہ اگر کتا کسی برتن میں منہ ڈال دے تو اسے تین مرتبہ دھونا چاہیئے، حالانکہ ابوہریرہ سے سات بار دھونے کا بھی فتویٰ منقول ہے اور سند کے اعتبار سے یہ پہلے فتوے سے زیادہ صحیح ہے، نیز یہ فتویٰ روایت کے موافق بھی ہے، اس لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ صحیح حدیث کے مقابلہ میں ان کے مرجوح فتوے اور رائے کو ترجیح دی جائے، رہے وہ اعتراضات جو باب کی اس حدیث پر احناف کی طرف سے وارد کئے گئے ہیں تو ان سب کے تشفی بخش جوابات دیئے جا چکے ہیں، تفصیل کے لیے دیکھئیے (تحفۃ الاحوذی، ج ۱ ص ۹۳)۔