You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو داود سليمان بن الأشعث السجستاني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، >أَنَّ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكْذِبْ قَطُّ إِلَّا ثَلَاثًا, ثِنْتَانِ فِي ذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى: قَوْلُهُ: {إِنِّي سَقِيمٌ}[الأنبياء: 63]، وَقَوْلُهُ: {بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا}[الصافات: 89]، وَبَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ فِي أَرْضِ جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا فَأُتِيَ الْجَبَّارُ فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ نَزَلَ هَاهُنَا رَجُلٌ مَعَهُ امْرَأَةٌ هِيَ أَحْسَنُ النَّاسِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَسَأَلَهُ عَنْهَا؟ فَقَالَ: إِنَّهَا أُخْتِي، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْهَا, قَالَ: إِنَّ هَذَا سَأَلَنِي عَنْكِ، فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، وَإِنَّهُ لَيْسَ الْيَوْمَ مُسْلِمٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ، وَإِنَّكِ أُخْتِي فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلَا تُكَذِّبِينِي عِنْدَهُ..., وَسَاقَ الْحَدِيثَ. قَالَ أَبو دَاود: رَوَى هَذَا الْخَبَرَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
Abu Hurairah reported the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم as saying Abraham صلی اللہ علیہ وسلم never told a lie except on three occasions twice for the sake of Allaah. Allaah quoted his words (in the Quran) “I am indeed sick” and “Nay, this was done by - this is their biggest one”. Once he was passing through the land of a tyrant (king). He stayed there in a place. People went to the tyrant and informed him saying “A man has come down here; he has a most beautiful woman with him. ” So he sent for him (Abraham) and asked about her. He said she is my sister. When he returned to her, he said “he asked me about you and I informed him that you were my sister. Today there is no believer except me and you. You are my sister in the Book of Allaah (i. e., sister in faith). So do not belie me before him. The narrator then narrated the rest of the tradition. Abu Dawud said “A similar tradition has also been narrated by Shuaib bin Abi Hamza from Abi Al Zinad from Al A’raj on the authority of Abu Hurairah from the Prophet صلی اللہ علیہ وسلم.
سیدنا ابوہریرہ ؓ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ ” بلاشبہ ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر تین مواقع پر ۔ دو بار اللہ عزوجل کے بارے میں ۔ جبکہ آپ نے ( قوم سے ) کہا : تھا «إني سقيم» ” میں بیمار ہوں ، یا میری طبیعت ناساز ہے ۔ “ دوسری بار آپ نے کہا : تھا «بل فعله كبيرهم هذا» ” یہ تو ان کے اس بڑے نے کیا ہے ۔ “ اور تیسری بار جب کہ وہ ایک جابر بادشاہ کے علاقے میں سے جا رہے تھے کہ ایک جگہ پڑاؤ کیا تو اس ظالم بادشاہ کو خبر دی گئی اور کہا گیا کہ یہاں ایک شخص اترا ہے اور اس کے ساتھ ایک عورت ہے انتہائی حسین و جمیل ! تو اس نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو بلا بھیجا اور خاتون کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا : ” یہ میری بہن ہے ۔ اور جب وہ اپنی اہلیہ کے پاس لوٹے تو اسے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے متعلق پوچھا ہے اور میں نے اس کو بتایا ہے کہ تو میری بہن ہے اور حقیقت یہ ہے کہ آج تیرے اور میرے علاوہ کوئی مسلمان نہیں ہے اور اللہ کی کتاب میں تو میری بہن ہے تو مجھے اس کے ہاں مت جھٹلانا ۔ “ اور حدیث بیان کی ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو شعیب بن ابی حمزہ نے ابو الزناد سے ، انہوں نے اعرج سے ، انہوں نے سیدنا ابوہریرہ سے ، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اسی کی مانند روایت کیا ہے ۔
وضاحت: ۱؎ : انہیں جھوٹ اس لئے کہا گیا ہے کہ ظاہر میں تینوں باتیں جھوٹ تھیں، لیکن حقیقت میں ابراہیم علیہ السلام نے یہ تینوں باتیں بطور تعریض و توریہ کہی تھیں، توریہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی ذومعنی گفتگو کرے، جس کا ایک ظاہری مفہوم ہو اور ایک باطنی، وہ اپنی گفتگو سے صحیح مقصود کی نیت کرے اور اس کی طرف نسبت کرنے میں جھوٹا نہ ہو، اگرچہ ظاہری الفاظ میں اور اس کی چیز کی طرف نسبت کرنے میں جسے مخاطب سمجھ رہا ہو جھوٹا ہو۔ ۲؎ : یہ بات ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہی تھی جب ان کے شہر کے لوگ باہر میلے کے لئے جارہے تھے، ان سے بھی لوگوں نے چلنے کے لئے کہا، تو انہوں نے بہانہ کیا کہ میں بیمار ہوں، یہ بہانہ بتوں کو توڑنے کے لئے کیا تھا، پھر جب لوگ میلہ سے واپس آئے تو پوچھا بتوں کو کس نے توڑا ؟ ابراہیم وضاحت نے جواب دیا: ’’ بڑے بت نے توڑا ‘‘، اگرچہ یہ دونوں قول خلاف واقعہ تھے لیکن حکمت سے خالی نہ تھے، اللہ کی رضامندی کے واسطے تھے۔