You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو داود سليمان بن الأشعث السجستاني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ قَالَ كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنْ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنْ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعٍ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنْ الصَّوَّاغِينَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي فَبَيْنَا أَنَا أَجَمْعُ لِشَارِفَيَّ مَتَاعًا مِنْ الْأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ وَشَارِفَايَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ أَقْبَلْتُ حِينَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ فَإِذَا بِشَارِفَيَّ قَدْ اجْتُبَّتْ أَسْنِمَتُهُمَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ ذَلِكَ الْمَنْظَرَ فَقُلْتُ مَنْ فَعَلَ هَذَا قَالُوا فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنْ الْأَنْصَارِ غَنَّتْهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابَهُ فَقَالَتْ فِي غِنَائِهَا أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ فَوَثَبَ إِلَى السَّيْفِ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا قَالَ عَلِيٌّ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ قَالَ فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي لَقِيتُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَكَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَهَا هُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَاهُ ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ حَتَّى جَاءَ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ فَإِذَا حَمْزَةُ ثَمِلٌ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ وَهَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ثَمِلٌ فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ
Ali bin Abi Talib said “I had an old she Camel that I got as my share from the booty on the day of Badr. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم also gave me an old she camel from the fifth that day. When I intended to cohabit with Fathimah daughter of the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم, I made arrangement with a man who was a goldsmith belonging to Banu Qainuqa’ to go with me so that we may bring grass. I intended to sell it to the goldsmith there by seeking help in my wedding feast. While I was collecting for my old Camels saddles, baskets and ropes both of she Camels were seated in a corner of the apartment of a man of the Ansar. When I collected what I collected (i. e., equipment) I turned (towards them). I suddenly found that the humps of she Camels were cut off and their hips were pierced and their lives were taken out. I could not control my eyes (to weep) when I saw that scene. I said “Who has done this?” They (the people) replied “Hamzah bin Abd Al Muttalib”. He is among the drunkards of the Ansar in this house. A singing girl is singing for him and his Companions. While singing she said “Oh Hamza, rise to these plumpy old she Camels. So he jumped to the sword and cut off their humps, pierced their hips and took out their livers. ” Ali said “I went till I entered upon the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم while Zaid bin Harithah was with him. ” The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم realized what I had met with. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم aid “What is the matter with you?” I said Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم, I never saw the thing that happened with me today. Hamzah wronged my she Camels, he cut off their humps, pierced their hips. Lo! He is in a house with drunkards. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم asked for his cloak. It was brought to him. He then went out, I and Zaid bin Harithah followed him until we reached the house where Hamzah was. He asked permission ( to entre). He was permitted. He found drunkards there. The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم began to rebuke him (Hamzah) for his action. Hamzah was intoxicated and his eyes were reddish. Hamzah looked at the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم. He then raised his eyes and looked at his knees, he then raised his eyes and looked at his navel and he then raised his eyes and looked at his face. Hamzah then said “Are you but the salves of my father? Then the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم knew that he was intoxicated. So the Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم moved backward. He then went out and we also went out with him. ”
سیدنا حسین بن علی ؓ نے بیان کیا کہ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے بتایا کہ میرے پاس ایک اچھی اونٹنی تھی جو مجھے بدر کے موقع پر غنیمت میں ملی تھی ۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس موقع پر اپنے خمس سے بھی ایک اونٹنی عنایت فرمائی تھی ۔ جب میں نے ارادہ کیا کہ ( اپنی زوجہ ) فاطمہ ؓا دختر رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھر لاؤں ‘ تو میں نے بنو قینقاع کے ایک آدمی سے ‘ جو کہ سنار تھا وعدہ لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر گھاس لائیں گے جسے میں سناروں کو بیچ کر اپنے ولیمے کا خرچ بنا سکوں گا ۔ پس اس خیال سے میں اپنی اونٹنیوں کے لیے پالان ‘ بورے اور رسیاں وغیرہ اکٹھے کر رہا تھا ‘ جبکہ میری اونٹنیاں ایک انصاری کے حجرے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں ۔ جب میں نے یہ سامان اکٹھا کر لیا اور آیا تو دیکھا کہ میری اونٹنیوں کے کوہان کٹے پڑے ہیں ‘ ان کے پہلو چیر دیے گئے ہیں اور جگر بھی نکال لیے گئے ہیں ۔ میں یہ منظر دیکھ کر اپنی آنکھوں پر ضبط نہ رکھ سکا ( یعنی رونے لگا ) اور پوچھا : یہ کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : یہ ( تمہارے چچا ) حمزہ بن عبدالمطلب نے کیا ہے اور وہ اس گھر میں انصاریوں کے ساتھ شراب کی ایک مجلس میں ہیں ۔ ایک گانے والی نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے یوں کہا : «ألا يا حمز للشرف النواء» ” اے حمزہ ! صحن میں بیٹھی ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے درپے ہو ۔ “ چنانچہ وہ فوراً اٹھے ‘ اپنی تلوار لی اور ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور پہلو چیر دیے اور جگر نکال لیے ۔ سیدنا علی ؓ کہتے ہیں : پھر میں چلا آیا حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا ۔ آپ کے پاس سیدنا زید بن حارثہ ؓ بیٹھے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ پر جو گزری تھی اسے میری صورت سے بھانپ لیا ‘ تو فرمایا ” کیا ہوا ؟ “ میں نے عرض کیا : اے اﷲ کے رسول ! میں نے آج جیسا دن کبھی نہیں دیکھا ۔ حمزہ نے میری اونٹنیوں پر حملہ کر کے ان کے کوہان کاٹ ڈالے ہیں اور پہلو چیر دیے ہیں ۔ اور وہ اس گھر میں موجود ہے اور اس کے ساتھ دوسرے شراب پینے والے بھی ہیں ۔ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی چادر طلب کی ‘ اسے اوڑھا اور چل پڑے ۔ میں اور سیدنا زید بن حارثہ ؓ ان کے پیچھے پیچھے تھے حتیٰ کہ آپ اس گھر کے پاس آ گئے جس میں حمزہ تھے ۔ آپ نے اندر جانے کی اجازت طلب کی ‘ تو آپ کو بلا لیا گیا ۔ آپ نے دیکھا کہ شراب نوشوں کی مجلس بپا ہے ۔ رسول اﷲ ﷺ حمزہ کو اس کی کارروائی پر ملامت کرنے لگے اور وہ نشے میں تھے ۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔ حمزہ نے رسول اﷲ ﷺ کی طرف دیکھا پھر نظر اٹھا کر ‘ آپ کے گھٹنوں تک دیکھا ۔ پھر نظر اٹھائی تو ناف تک دیکھا ۔ پھر نظر اٹھائی اور آپ کے چہرے کو دیکھا ۔ پھر بولے : تم میرے باپ کے غلام ہونے کے سوا کیا ہو ؟ تب رسول اﷲ ﷺ نے پہچانا کہ یہ نشے میں دھت ہیں ‘ تو آپ الٹے پاؤں پیچھے پلٹ آئے ۔ آپ نکلے تو ہم بھی آپ کے ساتھ نکل آئے ۔سیدنا حسین بن علی ؓ نے بیان کیا کہ سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے بتایا کہ میرے پاس ایک اچھی اونٹنی تھی جو مجھے بدر کے موقع پر غنیمت میں ملی تھی ۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے اس موقع پر اپنے خمس سے بھی ایک اونٹنی عنایت فرمائی تھی ۔ جب میں نے ارادہ کیا کہ ( اپنی زوجہ ) فاطمہ ؓا دختر رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھر لاؤں ‘ تو میں نے بنو قینقاع کے ایک آدمی سے ‘ جو کہ سنار تھا وعدہ لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم اذخر گھاس لائیں گے جسے میں سناروں کو بیچ کر اپنے ولیمے کا خرچ بنا سکوں گا ۔ پس اس خیال سے میں اپنی اونٹنیوں کے لیے پالان ‘ بورے اور رسیاں وغیرہ اکٹھے کر رہا تھا ‘ جبکہ میری اونٹنیاں ایک انصاری کے حجرے کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں ۔ جب میں نے یہ سامان اکٹھا کر لیا اور آیا تو دیکھا کہ میری اونٹنیوں کے کوہان کٹے پڑے ہیں ‘ ان کے پہلو چیر دیے گئے ہیں اور جگر بھی نکال لیے گئے ہیں ۔ میں یہ منظر دیکھ کر اپنی آنکھوں پر ضبط نہ رکھ سکا ( یعنی رونے لگا ) اور پوچھا : یہ کس نے کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : یہ ( تمہارے چچا ) حمزہ بن عبدالمطلب نے کیا ہے اور وہ اس گھر میں انصاریوں کے ساتھ شراب کی ایک مجلس میں ہیں ۔ ایک گانے والی نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے یوں کہا : «ألا يا حمز للشرف النواء» ” اے حمزہ ! صحن میں بیٹھی ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے درپے ہو ۔ “ چنانچہ وہ فوراً اٹھے ‘ اپنی تلوار لی اور ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور پہلو چیر دیے اور جگر نکال لیے ۔ سیدنا علی ؓ کہتے ہیں : پھر میں چلا آیا حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچا ۔ آپ کے پاس سیدنا زید بن حارثہ ؓ بیٹھے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ پر جو گزری تھی اسے میری صورت سے بھانپ لیا ‘ تو فرمایا ” کیا ہوا ؟ “ میں نے عرض کیا : اے اﷲ کے رسول ! میں نے آج جیسا دن کبھی نہیں دیکھا ۔ حمزہ نے میری اونٹنیوں پر حملہ کر کے ان کے کوہان کاٹ ڈالے ہیں اور پہلو چیر دیے ہیں ۔ اور وہ اس گھر میں موجود ہے اور اس کے ساتھ دوسرے شراب پینے والے بھی ہیں ۔ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی چادر طلب کی ‘ اسے اوڑھا اور چل پڑے ۔ میں اور سیدنا زید بن حارثہ ؓ ان کے پیچھے پیچھے تھے حتیٰ کہ آپ اس گھر کے پاس آ گئے جس میں حمزہ تھے ۔ آپ نے اندر جانے کی اجازت طلب کی ‘ تو آپ کو بلا لیا گیا ۔ آپ نے دیکھا کہ شراب نوشوں کی مجلس بپا ہے ۔ رسول اﷲ ﷺ حمزہ کو اس کی کارروائی پر ملامت کرنے لگے اور وہ نشے میں تھے ۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔ حمزہ نے رسول اﷲ ﷺ کی طرف دیکھا پھر نظر اٹھا کر ‘ آپ کے گھٹنوں تک دیکھا ۔ پھر نظر اٹھائی تو ناف تک دیکھا ۔ پھر نظر اٹھائی اور آپ کے چہرے کو دیکھا ۔ پھر بولے : تم میرے باپ کے غلام ہونے کے سوا کیا ہو ؟ تب رسول اﷲ ﷺ نے پہچانا کہ یہ نشے میں دھت ہیں ‘ تو آپ الٹے پاؤں پیچھے پلٹ آئے ۔ آپ نکلے تو ہم بھی آپ کے ساتھ نکل آئے ۔
وضاحت: ۱؎؎ : باقی اشعار اس طرح ہیں : «أَلا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاء وَهُنَّ ممقَّلاتٌ بالفناء ضَع السكين في اللبات منها وضرجهن حمزة بالدماء وعجل من أطايبها لشرب قديدًا من طبيخ أو شواء» اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لئے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو اوران کے حلق پر چھری پھیر کر انہیں خون میں لت پت کردے اور ان کے پاکیزہ ٹکڑوں یعنی کوہان اور جگر سے پکا ہوا یا بھنا ہوا گوشت شراب پینے والوں کے لئے جلدی تیار کرو ۔