You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أبو داود سليمان بن الأشعث السجستاني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ، عَنْ الْقَدَرِ ح، وحَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ:، حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ:، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ دُلَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يُحَدِّثُنَا عَنِ النَّضْرِ ح، وحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ قَبِيصَةَ، قَالَ:، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ أَبِي الصَّلْتِ، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ ابْنِ كَثِيرٍ وَمَعْنَاهُمْ قَالَ: كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، يَسْأَلُهُ عَنْ الْقَدَرِ؟ فَكَتَبَ: أَمَّا بَعْدُ, أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَالِاقْتِصَادِ فِي أَمْرِهِ، وَاتِّبَاعِ سُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَرْكِ مَا أَحْدَثَ الْمُحْدِثُونَ بَعْدَ مَا جَرَتْ بِهِ سُنَّتُهُ، وَكُفُوا مُؤْنَتَهُ، فَعَلَيْكَ بِلُزُومِ السُّنَّةِ, فَإِنَّهَا لَكَ بِإِذْنِ اللَّهِ عِصْمَةٌ، ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّهُ لَمْ يَبْتَدِعْ النَّاسُ بِدْعَةً إِلَّا قَدْ مَضَى قَبْلَهَا مَا هُوَ دَلِيلٌ عَلَيْهَا، أَوْ عِبْرَةٌ فِيهَا, فَإِنَّ السُّنَّةَ إِنَّمَا سَنَّهَا مَنْ قَدْ عَلِمَ مَا فِي خِلَافِهَا- وَلَمْ يَقُلْ ابْنُ كَثِيرٍ: مَنْ قَدْ عَلِمَ- مِنْ الْخَطَإِ وَالزَّلَلِ وَالْحُمْقِ وَالتَّعَمُّقِ، فَارْضَ لِنَفْسِكَ مَا رَضِيَ بِهِ الْقَوْمُ لِأَنْفُسِهِمْ, فَإِنَّهُمْ عَلَى عِلْمٍ وَقَفُوا، وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ كَفُّوا، وَهُمْ عَلَى كَشْفِ الْأُمُورِ كَانُوا أَقْوَى، وَبِفَضْلِ مَا كَانُوا فِيهِ أَوْلَى، فَإِنْ كَانَ الْهُدَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ, لَقَدْ سَبَقْتُمُوهُمْ إِلَيْهِ، وَلَئِنْ قُلْتُمْ: إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدَهُمْ مَا أَحْدَثَهُ إِلَّا مَنْ اتَّبَعَ غَيْرَ سَبِيلِهِمْ، وَرَغِبَ بِنَفْسِهِ عَنْهُمْ, فَإِنَّهُمْ هُمْ السَّابِقُونَ، فَقَدْ تَكَلَّمُوا فِيهِ بِمَا يَكْفِي، وَوَصَفُوا مِنْهُ مَا يَشْفِي، فَمَا دُونَهُمْ مِنْ مَقْصَرٍ، وَمَا فَوْقَهُمْ مِنْ مَحْسَرٍ، وَقَدْ قَصَّرَ قَوْمٌ دُونَهُمْ فَجَفَوْا، وَطَمَحَ عَنْهُمْ أَقْوَامٌ فَغَلَوْا، وَإِنَّهُمْ بَيْنَ ذَلِكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ. كَتَبْتَ تَسْأَلُ عَنْ الْإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ؟ فَعَلَى الْخَبِيرِ- بِإِذْنِ اللَّهِ- وَقَعْتَ: مَا أَعْلَمُ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ مِنْ مُحْدَثَةٍ، وَلَا ابْتَدَعُوا مِنْ بِدْعَةٍ, هِيَ أَبْيَنُ أَثَرًا، وَلَا أَثْبَتُ أَمْرًا مِنْ الْإِقْرَارِ بِالْقَدَر،ِ لَقَدْ كَانَ ذَكَرَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ الْجُهَلَاءُ, يَتَكَلَّمُونَ بِهِ فِي كَلَامِهِمْ وَفِي شِعْرِهِمْ، يُعَزُّونَ بِهِ أَنْفُسَهُمْ عَلَى مَا فَاتَهُمْ، ثُمَّ لَمْ يَزِدْهُ الْإِسْلَامُ بَعْدُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَقَدْ ذَكَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ، وَلَا حَدِيثَيْنِ، وَقَدْ سَمِعَهُ مِنْهُ الْمُسْلِمُونَ، فَتَكَلَّمُوا بِهِ فِي حَيَاتِهِ وَبَعْدَ وَفَاتِهِ, يَقِينًا وَتَسْلِيمًا لِرَبِّهِمْ، وَتَضْعِيفًا لِأَنْفُسِهِمْ, أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ لَمْ يُحِطْ بِهِ عِلْمُهُ، وَلَمْ يُحْصِهِ كِتَابُهُ، وَلَمْ يَمْضِ فِيهِ قَدَرُهُ، وَإِنَّهُ مَعَ ذَلِكَ لَفِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ, مِنْهُ اقْتَبَسُوهُ، وَمِنْهُ تَعَلَّمُوهُ، وَلَئِنْ قُلْتُمْ: لِمَ أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ كَذَا؟ لِمَ قَالَ كَذَا؟ لَقَدْ قَرَءُوا مِنْهُ مَا قَرَأْتُمْ، وَعَلِمُوا مِنْ تَأْوِيلِهِ مَا جَهِلْتُمْ، وَقَالُوا بَعْدَ ذَلِكَ كُلِّهِ: بِكِتَابٍ وَقَدَرٍ، وَكُتِبَتِ الشَّقَاوَةُ، وَمَا يُقْدَرْ يَكُنْ، وَمَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ، وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ، وَلَا نَمْلِكُ لِأَنْفُسِنَا ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، ثُمَّ رَغِبُوا بَعْدَ ذَلِكَ وَرَهِبُوا.
Sufyan said (according to one chain), and Abu al-Salit said (according to another chain): A man wrote to Umar bin Abd al-Aziz asking him about Divine decree. He wrote to him: To begin with, I enjoin upon you to fear Allah, to be moderate in (obeying) His Command, to follow the sunnah (practice) of His Prophet صلی اللہ علیہ وسلم and to abandon the novelties which the innovators introduced after his Sunnah has been established and they were saved from its trouble (i. e. novelty or innovation) ; so stick to Sunnah, for it is for you, if Allah chooses, a protection ; then you should know that any innovation which the people introduced was refuted long before it on the basis of some authority or there was some lesson in it, for the Sunnah was introduced by the people who were conscious of the error, slip, foolishness, and extremism in case of (the sunnah) was opposed. So accept for yourself what the people (in the past) had accepted for themselves, for they had complete knowledge of whatever they were informed, and by penetrating insight they forbade (to do prohibited acts); they had more strength (than us) to disclose the matters (of religion), and they were far better (than us) by virtue of their merits. If right guidance is what you are following, then you outstriped them to it. And if you say whatever the novelty occurred after them was introduced by those who followed the way other then theirs and disliked them. It is they who actually outstripped, and talked about it sufficiently, and gave a satisfactory explanation for it. Below them there is no place for exhaustiveness, and above them there is no place for elaborating things. Some people shortened the matter more than they had done, and thus they turned away (from them), and some people raised the matter more than they had done, and thus they exaggerated. They were on right guidance between that. You have written (to me) asking about confession of Divine decree, you have indeed approached a person who is well informed of it, with the will of Allah. I know what whatever novelty people have brought in, and whatever innovation people have introduced are not more manifest and more established than confession of Divine decree. The ignorant people (i. e. the Arabs before Islam) in pre-Islamic times have mentioned it ; they talked about it in their speeches and in their poetry. They would console themselves for what they lost, and Islam then strengthened it (i. e. belief in Divine decree). The Messenger of Allah صلی اللہ علیہ وسلم did not mention it in one or two traditions, but the Muslims heard it from him, and they talked of it from him, and they talked of it during his lifetime and after his death. They did so out of belief and submission to their Lord and thinking themselves weak. There is nothing which is not surrounded by His knowledge, and not counted by His register and not destined by His decree. Despite that, it has been strongly mentioned in His Book: from it they have derived it, and from it they have and so ? they also read in it what you read, and they knew its interpretation of which you are ignorant. After that they said: All this is by writing and decreeing. Distress has been written down, and what has been destined will occur ; what Allah wills will surely happen, and what He does not will will not happen. We have no power to harm or benefit ourselves. Then after that they showed interest (in good works) and were afraid (of bad deeds).
ابورجاء نے ابوصلت سے روایت کیا کہ ایک شخص نے سیدنا عمر بن عبدالعزیز ؓ کو خط لکھا ۔ جس میں اس نے ان سے تقدیر کا مسئلہ دریافت کیا ، تو انہوں نے جواب لکھا : حمد و صلاۃ کے بعد ، میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کیے رہو اور اللہ کے امر میں اعتدال سے کام لو ۔ اللہ کے نبی کی سنت کا اتباع کرو اور بدعتیوں کی بدعات سے دور رہو بالخصوص جب امر دین میں آپ ﷺ کی سنت جاری ہو چکی اور اس میں لوگوں کی ضرورت پوری ہو چکی ۔ سنت کو لازم پکڑو یقیناً یہی چیز باذن اللہ تمہارے لیے ( گمراہی سے ) بچنے کا سبب ہو گی ۔ یاد رکھو ! لوگوں نے جس قدر بھی بدعات نکالی ہیں ، ان سے پہلے وہ رہنمائی آ چکی جو ان ( بدعات ) کے خلاف دلیل ہے ۔ یا اس میں کوئی نہ کوئی عبرت ہے ۔ بلاشبہ سنت اس مقدس ذات نے عطا فرمائی جنہیں علم تھا کہ اس کی مخالفت میں کیا ، راوی محمد بن کثیر نے «من قد علم» کے لفظ روایت نہیں کیے ۔ خطا ٹھوکر اور حماقت اور ( ہلاکت کی ) کھائی ہے ۔ لہٰذا اپنے آپ کو اس چیز پر راضی اور مطمئن رکھو جس پر قوم ( صحابہ ) راضی رہے ہیں ، بلاشبہ وہ لوگ علم سے بہرہ ور تھے ۔ ( جن باتوں سے انہوں نے منع کیا ) گہری بصیرت کی بنا پر منع کیا اور ان حقائق کی آگہی پر ( جن سے تم بزعم خویش آگاہ ہوئے ہو ) وہ لوگ زیادہ قادر تھے اور اپنے فضائل کی بنا پر اس کے زیادہ حقدار تھے ۔ اگر حق و ہدایت یہی ہو جسے تم نے سمجھا ہے تو تم گویا ان سے سبقت لے گئے ۔ اگر تم یہ کہو کہ یہ امور ان ( صحابہ ) کے بعد نئے ایجاد ہوئے ہیں تو ان کے ایجاد کرنے والے ان ( صحابہ ) کی راہ پر نہیں ہیں ، بلکہ ان سے اعراض کرنے والے ہیں ۔ بلاشبہ وہ صحابہ ہی ( حق اور نیکی میں ) سبقت لے جانے والے تھے ۔ انہوں نے ان امور میں جو بات کی وہی کافی ہے ۔ جو بیان کیا اسی میں شفا ہے ۔ چنانچہ ان سے کم تر پر رکنا کوتاہی ( تفریط ) ہے اور ان سے بڑھ کر توضیح کرنا زیادتی یا تھکاوٹ ( افراط ) ہے ( ان کے طرز عمل سے کمی کرنا جائز ہے ، نہ ان سے بڑھنا جائز ) جنہوں نے کمی کی انہوں نے ظلم کیا اور جو آگے بڑھے انہوں نے غلو کیا ۔ جبکہ وہ ( صحابہ ) ان کے بین بین ( اصل ) ہدایت اور راہ مستقیم پر تھے ۔ تم نے تقدیر کے اقرار کے متعلق لکھ کر پوچھا ہے تو اللہ کے فضل سے تم نے ایک صاحب علم و خبر سے پوچھا ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ لوگوں نے جتنی بھی نئی باتیں گھڑی ہیں اور جتنی بھی بدعات ایجاد کی ہیں ان میں تقدیر کے مسئلے سے بڑھ کر بھی کوئی مسئلہ واضح اور دلائل کی رو سے قوی تر ہو ، اس کا ذکر تو قدیم ترین ایام جاہلیت میں بھی ہوتا تھا ، لوگ اپنی گفتگو اور اپنے اشعار میں اس کا ذکر کرتے تھے ، جو چیز انہیں حاصل نہ ہو پاتی تھی ، تقدیر کا ذکر کر کے اس سے تسلی پاتے تھے ۔ پھر اسلام نے ان کے بعد میں عقیدہ تقدیر کو مزید ( واضح اور ) مستحکم کیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک دو نہیں ، متعدد احادیث میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ مسلمانوں نے آپ سے سن کر آپ کی زندگی میں اور آپ کے بعد بھی اس کے بارے میں گفتگو کی ۔ جس میں اللہ رب العزت کے سامنے تسلیم و رضا اور اپنے عجز کا اعتراف کیا کہ کوئی چیز ایسی نہیں جس پر اللہ کا علم محیط نہ ہو ، یا کتاب تقدیر میں اس کا شمار نہ ہو ، یا اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہوئی ہو ۔ ساتھ ہی یہ بات اس کی محکم کتاب ( قرآن حکیم ) میں بھی ہے ۔ صحابہ کرام نے اس مسئلہ کو اسی سے اخذ کیا تھا اور یہیں سے وہ اس سے باخبر ہوئے ۔ اگر تم کہو اللہ نے فلاں آیت کیوں نازل کی اور اس طرح کیوں کہا ؟ تو ( ذرا سوچو کہ ) انہوں ( یعنی صحابہ ) نے بھی تو یہی آیات پڑھیں جو تم نے پڑھیں ۔ البتہ وہ اس کی تفسیر و تاویل پا گئے جس سے تم جاہل رہے ۔ اس کے بعد ان کا قول یہ ہے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے لکھا ہوا اور اس کی تقدیر سے ہے ۔ شقاوت اور بدبختی بھی لکھی ہوئی ہے ۔ جو کچھ مقدر ہے ، ہو جاتا ہے ۔ اللہ جو بھی چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا ۔ ہم اپنے نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں ۔ پھر ( اسی اصل پر ) وہ اللہ کی طرف راغب رہے اور اسی سے ڈرتے رہے ۔
وضاحت: ۱؎ : عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے اس جواب سے بدعت اور سنت کی راہ بالکل واضح ہو گئی اور یہ بات بھی صاف ہو گئی کہ کسی بھی عمل سے پہلے قرآن و سنت کو دیکھنا چاہئے، اگر ان میں نہ ملے تو صحابہ کرام اور تابعین عظام کو دیکھنا چاہئے کہ ان کا عمل اس پر تھا یا نہیں، اگر ہم اس معیار کو اختیار کر لیں تو اللہ کے فضل سے سارے اختلافات دور ہو جائیں اور بے شمار بدعات ہمیشہ کے لئے دم توڑ جائیں، لیکن ہم نے بعد کے لوگوں کی روش کو اپنا رکھا ہے اور بدعات کی گرم بازاری میں مگن ہیں۔