You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام أحمد بن شعيب النسائي
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عُمَارَةَ هُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ أَكْثَرُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَلَسْنَا نَقْضِي وَلَسْنَا هُنَالِكَ ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ عَلَيْنَا أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ وَلَا يَقُولُ إِنِّي أَخَافُ وَإِنِّي أَخَافُ فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا الْحَدِيثُ جَيِّدٌ جَيِّدٌ
It was narrated that 'Abdur-Rahman bin Yazid said: The people asked 'Abdullah too many questions one day, and 'Abdullah said: 'There was a time when we did not pass so many judgments, but now that time is over. Now Allah, the Mighty and Sublime, has decreed that we reach a time when, as you see, (we are asked to pass many judgments). Whoever among you is asked to pass a judgment after this day, let him pass judgment according to what is in the Book of Allah. If he is faced with a matter that is not mentioned in the Book of Allah, let him pass judgment according to the way His Prophet [SAW] passed judgment. If he is faced with a matter that is not mentioned in the Book of Allah and concerning which His Prophet did not pass judgment, then let him pass judgment according to the way the righteous passed judgment. If he is faced with a matter that is not mentioned in the Book of Allah, and concerning which His Prophet and the righteous did not pass judgment, then let him strive to work it out, and let him not say 'I am afraid, I am afraid.' For that which is lawful is clear and that which is unlawful is clear, and between them are matters which are not as clear. Leave that which makes you doubt for that which does not make you doubt.'
حضرت عبد الرحمٰن بن یزید نے فرمایا: ایک دن لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود پر کسی مسئلے کے فیصلے کے بارے میں بہت زور دیا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا: ایک وقت تھا کہ ہم فیصلے نہیں کیا کرتے تھے اور نہ ہمارا یہ مقام تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر فرمایا کہ ہم اس مرتبے کو پہنچ گئے ہیں جو تم دیکھ رہے ہو۔ آج کے بعد جس کے پاس کوئی فیصلہ آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے حکم کے مطابق فیصلہ کرے۔ اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہو جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی حکم ذکر نہیں تو پھر وہ نبیٔ اکرمﷺ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کرے۔ اور اگر کوئی ایسا مسئلہ سامنے آئے جس کے بارے میں نہ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی حکم ہے اور نہ رسول اللہﷺ کو کائی فیصلہ ہے تو پھر وہ نیک لوگوں کے فیصلے مطابق فیصلہ کرے… اور اگر کوئی ایسا معاملہ سامنے آئے جس کے بارے میں نہ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی حکم ہے اور نہ رسول اللہﷺ نے کوئی فیصلہ فرمایا ہو اور نہ سلف صالحین نے کوئی فیصلہ کیا ہو تو وہ اپنی رائے کے ساتھ حق بات تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ یہ نہ کہے کہ (مجھے فتویٰ دیتے ہوئے) ڈر لگتا ہے۔ اور میں خطرہ محسوس کرتا ہوں، اس لیے کہ حلال کا حکم واضح ہے اور حرام کا بھی۔ درمیان میں کچھ چیزیں مشتبہ ہیں تو (ان کے بارے میں اصول یہ ہے کہ) شک و شبہ والی چیز کو چھوڑ دے اور غیر مشتبہ چیز کو اختیار کر۔ابوعبد الرحمٰن (امام نسائی) نے کہا: یہ حدیث جید (قابل حجت) ہے۔
وضاحت: ۱؎ : مراد ” نیک علماء “ ہیں، کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ” صالحین “ صحابہ کرام ہی تھے، اور ان کی اکثریت عالم تھی، خلاصہ کلام یہ کہ صحابہ کرام کا اجماع مراد ہے، اسی طرح ہر زمانہ کے نیک علماء و ائمہ کرام کا اجماع بھی دلیل ہو گا، اور چونکہ مراد زمانہ کے علماء کا اجماع ہے اس لیے اس سے ایک عالم کی تقلید شخصی ہرگز مراد نہیں ہو سکتی، جیسا کہ بعض مقلدین نے اس سے تقلید شخصی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔