You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن يزيد ابن ماجة القزويني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَالِدٍ أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ إِنَّا نَجِدُ صَلَاةَ الْحَضَرِ وَصَلَاةَ الْخَوْفِ فِي الْقُرْآنِ وَلَا نَجِدُ صَلَاةَ السَّفَرِ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ إِلَيْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَعْلَمُ شَيْئًا فَإِنَّمَا نَفْعَلُ كَمَا رَأَيْنَا مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ
It was narrated from Umayyah bin ‘Abdullah bin Khalid that he said to ‘Abdullah bin ‘Umar: “We find (mention of) the prayer of the resident and the prayer in a state of fear in the Qur’an, but we do not find any mention of the prayer of the traveler. ‘Abdullah said to him: “Allah sent Muhammad (ﷺ) to us, and we did not know anything, rather we do what we saw Muhammad (ﷺ) doing.”
سیدنا امیہ بن عبداللہ بن خالد ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے کہا: ہمیں قرآن مجید میں حجر کی نماز( جب سفر کی حالت میں نہ ہوں) اور نماز خوف کا ذکر تو ملتا ہے، لیکن سفر کی نماز کا ذکر نہیں ملتا۔ سیدناعبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو ہماری طرف( نبی بنا کر) بھیجا جب کہ ہمیں( دین کے کسی مسئلے کا) کوئی علم نہ تھا تو ہم نے جس طرح محمد ﷺ کو کرتے دیکھا ہے، ہم اسی طرح عمل کریں گے۔
حالانکہ قرآن کریم میں یہ آیت موجود ہے: «وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا» اخیر تک، یعنی: جب تم زمین میں سفر کرو تو نماز کے قصر کرنے میں تم پر گناہ نہیں، اگر تم کو ڈر ہو کہ کافر تم کو ستائیں گے ، اس آیت سے سفر کی نماز کا حکم نکلتا ہے، مگر چونکہ اس میں قید ہے کہ اگر تم کو کافروں کا ڈر ہو تو امیہ بن عبداللہ نے نماز خوف سے اس کو خاص کیا، کیونکہ صرف سفر کا حکم جس میں ڈر نہ ہو قرآن میں نہیں پایا، اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ حکم صاف طور سے قرآن میں نہیں ہے، لیکن نبی اکرم ﷺ کے فعل سے مطلق سفر میں قصر کرنا ثابت ہے، پس حدیث سے جو امر ثابت ہو اس کی پیروی تو ویسے ہی ضروری ہے، جیسے اس امر کی جو قرآن سے ثابت ہو، ہم تک قرآن اور حدیث دونوں نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ سے پہنچا ہے، اور قرآن میں حدیث کی پیروی کا صاف حکم ہے، جو کوئی صرف قرآن پر عمل کرنے کا دعویٰ کرے، اور حدیث کو نہ مانے وہ گمراہ ہے، اور اس نے قرآن کو بھی نہیں مانا، اس لئے کہ قرآن میں صاف حکم ہے: «وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا» اور فرمایا: «من يطع الرسول فقد أطاع الله» اور یہ ممکن نہیں کہ حدیث کے بغیر کوئی قرآن پر عمل کر سکے، اس لئے کہ قرآن مجمل ہے، اور حدیث اس کی تفسیر ہے، مثلاً قرآن میں نماز ادا کرنے کا حکم ہے لیکن اس کے شرائط، ارکان، اور کیفیات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، اسی طرح زکاۃ، حج، روزہ وغیرہ دین کے ارکان بھی صرف قرآن دیکھ کر ادا نہیں ہو سکتے، اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: «ألا إني أوتيت القرآن ومثله معه» خبردار ہو! مجھے قرآن دیا گیا، اور اس کے مثل ایک اور ، یعنی حدیث۔