You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن يزيد ابن ماجة القزويني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ وَيَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالَا حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ كُلَّ لَيْلَةٍ فَيَقُولُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ فَلِذَلِكَ كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ عَلَى أَوَّلِهِ
It was narrated from Abu Hurairah that the Messenger of Allah (ﷺ) said: “Our Lord, the Blessed and Exalted, descends when one third of the night remains, every night and He says: ‘Who will ask of Me, that I may give him? Who will call upon Me, that I may answer him? Who will ask My forgiveness, that I may forgive him?’ until dawn comes.” Hence they used to prefer voluntary prayers at the end of the night rather than at the beginning.
ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ہر رات جب رات کا آخری تیسرا حصہ باقی ہوتا ہے تو ( آسمانِ دنیا پر) نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تو میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے بخشش مانگے تو میں اسے بخش دوں؟ ( اللہ تعالیٰ اسی طرح فرماتا رہتا ہے) حتی کہ صبح صادق طلوع ہو جاتی ہے۔‘‘ اسی لیے سلف رات کے پہلےحصے کے بجائے آخری حصے میں نماز پڑھنا زیادہ پسند کرتے تھے۔
یہ حدیث بڑی عظیم الشان ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کی شرح میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے، جس کا نام کتاب شرح احادیث النزول ہے، نزول: اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے جیسے سمع، بصر، کلام، ضحک، تعجب، اور صعود وغیرہ، اس کے ظاہری معنی یعنی اترنے پر ہمارا ایمان ہے، اور اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے، اور متاخرین اہل کلام نے اس کی واہی اور کمزور تاویلیں کی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نزول سے مراد اس کی رحمت کا نزول ہے، یا اس کے فرشتے کا اترنا ہے، جہمیہ اور منکرین صفات نے بھی یہی کہا ہے، اور علمائے حق ہمیشہ سے ان کے مخالف اور رد کرنے والے رہے ہیں، امام الائمۃ احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ایک جہمی سے کہا: اچھا اللہ کی رحمت یا اس کا امر کہاں سے اترتا ہے، جب تو اسی بات کا قائل نہیں ہے کہ اللہ اوپر ہے، تو رحمت اور امر کس کے پاس سے اترتا ہے، اور یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے علو کے اثبات میں ایک قوی دلیل ہے۔