You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن يزيد ابن ماجة القزويني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمٌ أَفَأَصُومُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ
It was narrated from Ibn Buraidah that his father said: “A woman came to the Prophet (ﷺ) and said: ‘O Messenger of Allah, my mother has died and she owed a fast. Should I fast on her behalf?’ He said: ‘Yes.’”
بریدہ بن حصیب ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک خاتون نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: اے اللہ کے رسول! میری والدہ فوت ہوگئی اور ان کے ذمے روزے تھے ۔ کیا میں ان کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔ ‘‘
علامہ ابن القیم فرماتے ہیں کہ میت کی طرف سے نذر کا روزہ رکھنا جائز ہے، اور فرض اصلی یعنی رمضان کا جائز نہیں، عبداللہ بن عباس اور ان کے اصحاب اور امام احمد کا یہی قول ہے اور یہ صحیح ہے کیونکہ فرض روزہ مثل نماز کے ہے، اور نماز کوئی دوسرے کی طرف سے نہیں پڑھ سکتا، اور نذر مثل قرض کے ہے تو میت کی طرف سے وارث کا ادا کرنا کافی ہو گا، جیسے اس کی طرف سے قرض ادا کرنا، الروضہ الندیہ میں ہے کہ میت کی طرف سے ولی کا روزہ رکھنا اس وقت کافی ہو گا جب اس نے عذر سے صیام رمضان نہ رکھے ہوں، لیکن اگر بلا عذر کسی نے صیام رمضان نہ رکھے تو اس کی طرف سے ولی کا روزے رکھنا کافی نہ ہو گا جیسے میت کی طرف سے توبہ کرنا، یا اسلام لانا یا نماز ادا کرنا کافی نہیں ہے، اور ظاہر مضمون حدیث کا یہ ہے کہ ولی پر میت کی طرف سے روزہ رکھنا یا کھانا کھلانا واجب ہے خواہ میت نے وصیت کی ہو اس کی یا نہ کی ہو۔