You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن يزيد ابن ماجة القزويني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، ح وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: لَا تُغَالُوا صَدَاقَ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا، أَوْ تَقْوًى عِنْدَ اللَّهِ، كَانَ أَوْلَاكُمْ وَأَحَقَّكُمْ بِهَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَصْدَقَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ أَكْثَرَ مِنَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُثَقِّلُ صَدَقَةَ امْرَأَتِهِ حَتَّى يَكُونَ لَهَا عَدَاوَةٌ فِي نَفْسِهِ، وَيَقُولُ: قَدْ كَلِفْتُ إِلَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ، أَوْ عَرَقَ الْقِرْبَةِ وَكُنْتُ رَجُلًا عَرَبِيًّا مَوْلِدًا، مَا أَدْرِي مَا عَلَقُ الْقِرْبَةِ، أَوْ عَرَقُ الْقِرْبَةِ
It was narrated that: Abu Ajfa As-Sulami said: “Umar bin Khattab said: 'Do not go to extremes with regard to the dowries of women, for if that were a sign of honor and dignity in this world or a sign of Taqwa before Allah, then Muhammad (ﷺ) would have done that before you. But he did not give any of his wives and none of his daughters were given more than twelve uqiyyah. A man may increase dowry until he feels resentment against her and says: “You cost me everything I own,” or, “You caused me a great deal of hardship.”'” (Hassan)
حضرت ابوالعجفاء سلمی ؓ سے روایت ہے، حضرت عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: عورتوں کے حق مہر میں غلو نہ کرو، اگر یہ کام (بہت زیادہ حق مہر مقرر کرنا) دنیا میں عزت کا باعث ہوتا، یا اللہ کے ہاں تقویٰ (اور نیکی کا شمار ) ہوتا تو حضرت محمد ﷺ زیادہ حق رکھتے تھے کہ ایسا کرتے۔ بارہ اوقیہ سے زیادہ نہ نبی ﷺ نے اپنی کسی زوجہ محترمہ کو حق مہر دیا اور نہ آپ کی کسی بیٹی کو ملا۔ آدمی اپنی بیوی کے لیے بہت زیادہ حق مہر مقرر کر لیتا ہے۔ بعد میں اس کے دل میں بیوی سے نفرت کا باعث بن جاتا ہے۔ اور وہ کہتا ہے: میں نے تیرے لیے مشکیزے کی رسی اٹھائی۔ یا مشک کا پسینہ برداشت کیا۔ابوالعجفاء ؓ نے فرمایا: میں مولد عربی تھا، (اس لیے اس محاورے کو سمجھ نہیں سکا۔) معلوم نہیں علق القربة (مشک کی رسی) یا علق القربه (مشک کا پسینہ)، اس کا کیا مطلب ہے۔