You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن يزيد ابن ماجة القزويني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَنْبَأَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي إِنَّ عَبْدًا قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا ثُمَّ عَرَضَتْ لَهُ التَّوْبَةُ، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنِّي قَتَلْتُ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ: بَعْدَ تِسْعَةٍ وَتِسْعِينَ نَفْسًا قَالَ: فَانْتَضَى سَيْفَهُ فَقَتَلَهُ، فَأَكْمَلَ بِهِ الْمِائَةَ، ثُمَّ عَرَضَتْ لَهُ التَّوْبَةُ، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنِّي قَتَلْتُ مِائَةَ نَفْسٍ، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ: فَقَالَ: وَيْحَكَ، وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَكَ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ؟ اخْرُجْ مِنَ الْقَرْيَةِ الْخَبِيثَةِ الَّتِي أَنْتَ فِيهَا إِلَى الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ قَرْيَةِ كَذَا وَكَذَا، فَاعْبُدْ رَبَّكَ فِيهَا، فَخَرَجَ يُرِيدُ الْقَرْيَةَ الصَّالِحَةَ، فَعَرَضَ لَهُ أَجَلُهُ فِي الطَّرِيقِ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، قَالَ إِبْلِيسُ: أَنَا أَوْلَى بِهِ، إِنَّهُ لَمْ يَعْصِنِي سَاعَةً قَطُّ، قَالَ: فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ: إِنَّهُ خَرَجَ تَائِبًا قَالَ هَمَّامٌ: فَحَدَّثَنِي حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: فَبَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَلَكًا، فَاخْتَصَمُوا إِلَيْهِ ثُمَّ رَجَعُوا، فَقَالَ: انْظُرُوا، أَيَّ الْقَرْيَتَيْنِ كَانَتْ أَقْرَبَ، فَأَلْحِقُوهُ بِأَهْلِهَا، قَالَ قَتَادَةُ: فَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ احْتَفَزَ بِنَفْسِهِ فَقَرُبَ مِنَ الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ، وَبَاعَدَ مِنْهُ الْقَرْيَةَ الْخَبِيثَةَ، فَأَلْحَقُوهُ بِأَهْلِ الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ. قَالَ أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْقَطَّانِ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
It was narrated that Abu Sa'eed Khudri said: “Shall I not tell you what I heard directly from the Messenger of Allah (ﷺ)? I heard it and memorized it: 'A man killed ninety-nine people, then the idea of repentance occurred to him. He asked who was the most knowledgeable of people on earth, and he was told of a man so he went to him and said: “I have killed ninety-nine people. Can I repent?” He said: “After ninety-nine people?!” He said: 'So he drew his sword and killed him, thus completing one hundred. Then the idea of repentance occurred to him (again), so he asked who was the most knowledgeable of people, and he was told of a man (so he went to him) and said: “I have killed one hundred people. Can I repent?” He said: “Woe to you, what is stopping you from repenting? Leave the evil town where you are living and go to a good town, such and such town and worship your Lord there” So he went out, heading for the good town, but death came to him on the road. The angels of mercy and angels of punishment argued over him. Iblis (Satan) said: “I have more right to him, for he never disobeyed me for a moment. “But the angels of mercy said: “He want out repenting.” (One of the narrators) Hammam said: “Humaid At-Tawil narrated to me from Bakr bin Abdullah that Abu Rafi said: 'So Allah (SWT) sent an angel to whom they referred (the case). He said: “Look and see which of the two towns was he closer, and put him with its people.” (One of the narrators) Qatadah said: “Hasan narrated to us: 'When death came to him he strove and drew closer to the good town, and farther away from the evil town, so they put him with the people of the good town.”
ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا: کیا میں تم کو ایک حدیث نہ سنائوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ کے دہن مبارک سے سنی ہے؟ اسے میں نے خود اپنے کانوں سے سنا، اور میرے دل نے اسے یاد رکھا۔ ( نبی ﷺ نے فرمایا:) ’’ایک بندے نے ننانوے انسان قتل کیے۔ آخر اسے توبہ کا خیال آگیا، چنانچہ اس نے دنیا کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے ایک آدمی کا پتہ دیا گیا۔ وہ اس کے پاس گیا اور کہا: میں ننانوے انسان قتل کر چکا ہوں۔ کیا میری توبہ ممکن ہے؟ اس نے کہا: ننانوے انسان ( قتل کرنے) کے بعد ( توبہ کا طریقہ پوچھتے ہو؟) اس نے تلوار نکال کر اسے بھی قتل کر دیا اور سو کی تعداد پوری کر دی۔ اس کے بعد پھر توبہ کی خواہش پیدا ہوئی تو اس نے دنیا کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا۔ اسے ایک آدمی کا پتہ دیا گیا، چنانچہ وہ اس کے پاس گیا اور کہا: میں نے سو افراد کو قتل کیا ہے تو کیا میری توبہ ممکن ہے؟ اس نے کہا: تیرا بھلا ہو! تیرے اور توبہ کے درمیان کون رکاوٹ بن سکتا ہے؟ تو جس گندی بستی میں رہائش پذیر ہے اسے چھوڑ کر نیک لوگوں کی فلاں بستی میں چلا جا اور وہاں اپنے رب کی عبادت کر۔ وہ نیک لوگوں کی بستی میں جانے کے ارادے سے ( اپنی بستی سے ) نکل کھڑا ہوا۔ راستے میں اسے موت آگئی۔ اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہو گیا۔ ابلیس نے کہا: اس کا مجھ سے گہرا تعلق ہے۔ اس نے ایک گھڑی بھی میری نافرمانی نہیں کی۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا: یہ تائب ہو کر گھر سے نکلا ہے۔‘‘ (حدیث کے راوی ) ہمام بیان کرتے ہیں کہ مجھے حمید الطویل نے بکر بن عبداللہ سے انہوں نے ابوو رافع سے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں: اللہ عزوجل نے ایک فرشتہ بھیجا۔ ان فرشتوں ( کی دونوں جماعتوں ) نے اس کے سامنے معاملہ پیش کیا اور اس کی طرف رجوع کیا۔ اس نے کہا: دیکھو یہ آدمی دونوں بستیوں میں سے کس کے زیادہ قریب تھا، اسے اس بستی والوں میں شامل کر لو۔ امام حسن بصری نے فرمایا: اسے جب موت آئی تھی تو وہ( مرتے مرتے بھی) گھسٹ کر نیک لوگوں کی بستی سے قریب ہوا، اور برے لوگوں کی بستی سے دور ہوا، چنانچہ فرشتوں نے اسے نیک بستی والوں میں شمار کر لیا۔امام ابن ماجہ نے ایک دوسری سند سے ہمام کے واسطے سے یہ روایت اسی طرح بیان کی ہے۔
ایسی بستی جس میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں، فتح الباری میں ہے کہ یہ کافروں کی بستی تھی۔ ۲؎: سبحان اللہ! اگر مالک کے رحم و کرم کو سامنے رکھا جائے تو امید ایسی بندھ جاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی گناہ گار کو عذاب نہ ہو گا، اور اگر اس کے غضب اور عدل اور قہر کی طرف خیال کیا جائے، تو اپنے اعمال کا حال دیکھ کر ایسا خوف طاری ہوتا ہے کہ بس اللہ کی پناہ، ایمان اسی کا نام ہے کہ مومن خوف (ڈر) اور رجاء (امید) کے درمیان رہے، اگر خوف ایسا غالب ہوا کہ امید بالکل جاتی رہے تب بھی آدمی گمراہ ہو گیا، اور اگر امید ایسی غالب ہوئی کہ خوف جاتا رہا جب بھی اہل ہدایت اور اہل سنت سے باہر ہو گیا، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ گناہ (خواہ کسی قدر ہوں) پر آدمی کو توبہ کا خیال نہ چھوڑنا چاہئے اور گناہوں کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، وہ ارحم الراحمین بندہ نواز ہے اور اس کا ارشاد ہے: «رحمتى سبقت غضبى» یعنی میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی اور نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: «مغفرتك أرجى عندي من عملي» یعنی اے رب اپنے عمل سے زیادہ مجھے تیری مغفرت کی امید ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان قاتل کی توبہ قبول ہو سکتی ہے، گو اس میں شک نہیں کہ مومن کا قتل بہت بڑا گناہ ہے اور مومن قاتل کی جزا یہی ہے کہ اس پر عذاب الٰہی اترے دنیا یا آخرت یا دونوں میں، مگر اس حدیث اور ایسی حدیثوں کی وجہ سے جن سے امید کو ترقی ہوتی ہے یہ کوئی نہ سمجھے کہ گناہ ضرور بخش دیا جائے گا، پھر گناہ سے بچنا کیا ضروری ہے کیونکہ گناہ پر عذاب تو وعدہ الٰہی سے معلوم ہو چکا ہے اب مغفرت وہ مالک کے اختیار میں ہے بندے کو ہرگز معلوم نہیں ہو سکتا کہ اس کی توبہ قبول ہوئی یا نہیں، اور اس کی مغفرت ہو گی یا نہیں، پس ایسے موہوم خیال پر گناہ کا ارتکاب کر بیٹھنا اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت پر تکیہ کر لینا بڑی حماقت اور نادانی ہے، ہر وقت گناہ سے بچتا رہے خصوصاً حقوق العباد سے، اور اگر بدقسمتی سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو دل و جان سے اس سے توبہ کرے، اور اپنے مالک کے سامنے گڑگڑائے روئے، اور عہد کرے کہ پھر ایسا گناہ نہ کروں گا تو کیا عجب ہے کہ مالک اس کا گناہ بخش دے وہ غفور اور رحیم ہے۔