You can use this search to find anything in the Quran in Arabic, Urdu, or English.To search Hadith, use the toggle button below to switch modes.
✍️ الإمام محمد بن يزيد ابن ماجة القزويني
📄 ابواب کی تعداد: 340
📘 احادیث کی کل تعداد: 34,373
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ فَأَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ قَالَ اجْعَلُوا حِجَّتَكُمْ عُمْرَةً فَقَالَ النَّاسُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ فَكَيْفَ نَجْعَلُهَا عُمْرَةً قَالَ انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ فَافْعَلُوا فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ فَغَضِبَ فَانْطَلَقَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ غَضْبَانَ فَرَأَتْ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ فَقَالَتْ مَنْ أَغْضَبَكَ أَغْضَبَهُ اللَّهُ قَالَ وَمَا لِي لَا أَغْضَبُ وَأَنَا آمُرُ أَمْرًا فَلَا أُتْبَعُ
It was narrated that Bara’ bin ‘Azib said: “The Messenger of Allah (ﷺ) and his Companions came out to us and we entered Ihram for Hajj. When we came to Makkah, he said: ‘Make your Hajj (to) ‘Umrah.’ The people said: ‘O Messenger of Allah, we have entered Ihram for Hajj, how can we make it ‘Umrah?’ He said: ‘Look at what I command you to do, and do it.’ They repeated their question and he got angry and went away. Then he entered upon ‘Aishah angry and she saw anger in his face, and said: ‘Who has made you angry? May Allah vex him!’ He said: ‘Why should I not get angry, when I give a command and it is not obeyed?’”
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انھوں نے فر یا : رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحا بہ ؓم باہر ہمارے پاس تشریف لا ئے ۔ ہم نے حج کا احرام باندھا ۔ جب ہم مکہ آ ئے تو رسول اللہ ﷺ نے فر یا : اپنے حج کو عمرہ بنا دو ۔ لوگوں نے کہا : اے اللہ کےرسول اللہ ! ہم نے حج کا احرام با ندھا ہے اسے عمر ہ کس طرح بناہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فر یا : دیکھو ! میں تمھیں جو حکم دیتا ہوں اس پر عمل کرو۔ صحابہ ؓم نے دوبارہ وہی با ت عرض کی تو رسو ل اللہ ﷺ نا راض ہو کر چل د یے ۔ آ پ حضرت عا ئشہ ؓؓ کے پاس تشریف لائے تو ( ابھی تک )غصے کی حا لت میں تھے ۔ انھوں نے نبی ﷺکے چہرہ اقدس پر ناراضی کےآثار دیکھے تو عرض کیا : آپ کو کس نے نا راض کیا ؟ اللہ اسے غصے میں مبتلا کر دے۔ رسو ل اللہ ﷺ نے فر یا : میں کیوں نا راض نہ ہو ں؟ میں ایک حکم دیتا ہوں میرے حکم کی تعمیل نہیں کی جاتی ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو سن کر اس پر عمل کرنے میں صرف اس خیال سے دیر کرے کہ یہ حدیث اس کے ملک کے رسم و رواج کے خلاف ہے، یا اس کے ملک یا قوم کے یا مذہب کے عالموں اور درویشوں یا اگلے بزرگوں نے اس پرعمل نہیں کیا، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلاتا اور آپ کو ناراض کرتا ہے، اور جو اللہ تعالی کے رسول کو غصہ دلائے اور اس کو ناراض کرے اس کا ٹھکانا کہیں نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مومن کا کام یہ ہے کہ اس کو سنتے ہی جان و دل سے قبول کرے، اور فوراً اس پر عمل کرے ، اگر چہ تمام جہاں کے مولوی، ملا، درویش، پیر، مرشد، عالم اور مجتہد اس کے خلاف ہوں، اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس پر عمل کرنے میں دل نہایت خوش اور ہشاش بشاش ہو اور ذرا بھی کدورت اورتنگی نہ ہو بلکہ اپنے کو بڑا خوش قسمت سمجھے کہ اس کو حدیث رسول پر عمل کرنے کی توفیق ہوئی۔ اگر ایسا نہ کرے یعنی عمل ہی نہ کرے یا عمل تو کرے مگر ذرا لیت ولعل یا اداسی کے ساتھ اس خیال سے کہ درویش اور مولوی اس کے خلاف ہیں، آخر ان لوگوں کا بھی کچھ درجہ اور مقام ہے، اور کچھ سمجھ کر ہی ان لوگوں نے حدیث کے خلاف کیا ہو گا؟ تو جان لینا چاہئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ناراض ہیں، اور ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ناراض ہو گئے اور بالفرض سارے زمانے کے مولوی یا درویش ہم سے خوش بھی ہوئے تو ہم ان کی خوشی کو کیا کریں گے، وہ خوش ہوں یا ناخوش ہوں ہمارے آقا، ہمارے مولیٰ ہمارے رسول ہم سے خوش رہیں تو ہمارا بیڑا پار ہے، یااللہ مرتے ہی ہمیں ہمارے رسول اور آل و اصحاب رسول سے ملا دے، ہم دنیا میں بھی ان ہی کے پیرو تھے، عالم برزخ اور آخرت میں بھی ان ہی کی جوتیوں کے پاس رہنا چاہتے ہیں، نہ دنیا میں ہم کو کسی سے مطلب تھا، نہ عقبیٰ (آخرت) میں ہمیں کسی اور کا ساتھ چاہئے۔ اگرجنت میں جانے کا ارادہ ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا پٹہ گردن میں پہن لو۔ مسلک سنت پہ سالک تو چلا چل بے ڈھرک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک۔