“Our Lord! We have believed in what You have sent down and we follow the Noble Messenger, therefore record us among the witnesses of the truth.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
ربنا صدَّقنا بما أنزلت من الإنجيل، واتبعنا رسولك عيسى عليه السلام، فاجعلنا ممن شهدوا لك بالوحدانية ولأنبيائك بالرسالة، وهم أمة محمد صلى الله عليه وسلم الذين يشهدون للرسل بأنهم بلَّغوا أممهم.
پھانسی کون چڑھا ؟ جب حضرت عیسیٰ ؑ نے ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کو دیکھ لیا کہ اپنی گمراہی کج روی اور کفر و انکار سے یہ لوگ ہٹتے ہی نہیں، تو فرمانے لگے کہ کوئی ایسا بھی ہے ؟ جو اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچنے کے لئے میری تابعداری کرے اس کا یہ مطلب بھی لیا گیا ہے کہ کوئی ہے جو اللہ جل شانہ کے ساتھ میرا مددگار بنے ؟ لیکن پہلا قول زیادہ قریب ہے، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے فرمایا اللہ جل شانہ کی طرف پکارنے میں میرا ہاتھ بٹانے والا کون ہے ؟ جیسے کہ نبی اللہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ مکہ شریف سے ہجرت کرنے کے پہلے موسم حج کے موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے اللہ جل شانہ کا کلام پہنچانے کے لئے جگہ دے ؟ قریش تو کلام الٰہی کی تبلیغ سے مجھے روک رہے ہیں یہاں تک کہ مدینہ شریف کے باشندے انصار کرام اس خدمت کے لئے کمربستہ ہوئے آپ کو جگہ بھی دی آپ کی مدد بھی کی اور جب آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے تو پوری خیرخواہی اور بےمثال ہمدردی کا مظاہرہ کیا، ساری دنیا کے مقابلہ میں اپنا سینہ سپر کردیا اور حضور ﷺ کی حفاظت خیرخواہی اور آپ کے مقاصد کی کامیابی میں ہمہ تن مصروف ہوگئے ؓ وارضاھم اسی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کی اس آواز پر بھی چند بنی اسرائیلیوں نے لبیک کہی آپ پر ایمان لائے آپ کی تائید کی تصدیق کی اور پوری مدد پہنچائی اور اس نور کی اطاعت میں لگ گئے جو اللہ ذوالجلال نے ان پر اتارا تھا یعنی انجیل یہ لوگ دھوبی تھے اور حواری انہیں ان کے کپڑوں کی سفیدی کی وجہ سے کہا گیا ہے، بعض کہتے ہیں یہ شکاری تھے، صحیح یہ ہے کہ حواری کہتے ہیں مددگار کو، جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جنگ خندق کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کوئی جو سینہ سپر ہوجائے ؟ اس آواز کو سنتے ہی حضرت زبیر تیار ہوگئے آپ نے دوبارہ یہی فرمایا پھر بھی حضرت زبیر نے ہی قدم اٹھایا پسحضور ﷺ نے فرمایا ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرا حواری زبیر ہے ؓ پھر یہ لوگ اپنی دعا میں کہتے ہیں ہمیں شاہدوں میں لکھ لے، اس سے مراد حضرت ابن عباس کے نزدیک امت محمد ﷺ میں لکھ لینا ہے، اس تفسیر کی روایت سنداً بہت عمدہ ہے، پھر بنی اسرائیل کے اس ناپاک گروہ کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت عیسیٰ کی طرف سے بھرے تھے کہ یہ شخص لوگوں کو بہکاتا پھرتا ہے ملک میں بغاوت پھیلا رہا ہے اور رعایا کو بگاڑ رہا ہے، باپ بیٹوں میں فساد برپا کر رہا ہے، بلکہ اپنی خباثت خیانت کذب و جھوٹ (دروغ) میں یہاں تک بڑھ گئے کہ آپ کو زانیہ کا بیٹا کہا اور آپ پر بڑے بڑے بہتان باندھے، یہاں تک کہ بادشاہ بھی دشمن جان بن گیا اور اپنی فوج کو بھیجا تاکہ اسے گرفتار کر کے سخت سزا کے ساتھ پھانسی دے دو ، چناچہ یہاں سے فوج جاتی ہے اور جس گھر میں آپ تھے اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے ناکہ بندی کر کے گھر میں گھستی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو ان مکاروں کے ہاتھ سے صاف بچا لیتا ہے اس گھر کے روزن (روشن دان) سے آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہے اور آپ کی شباہت ایک اور شخص پر ڈال دی جاتی ہے جو اسی گھر میں تھا، یہ لوگ رات کے اندھیرے میں اس کو عیسیٰ سمجھ لیتے ہیں گرفتار کر کے لے جاتے ہیں سخت توہین کرتے ہیں اور سر پر کانٹوں کو تاج رکھ کر اسے صلیب پر چڑھا دیتے ہیں، یہی ان کے ساتھ اللہ کا مکر تھا کہ وہ تو اپنے نزدیک یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے اللہ کے نبی کو پھانسی پر لٹکا دیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تو نجات دے دی تھی، اس بدبختی اور بدنیتی کا ثمرہ انہیں یہ ملا کہ ان کے دل ہمیشہ کے لئے سخت ہوگئے باطل پر اڑ گئے اور دنیا میں ذلیل و خوار ہوگئے اور آخر دنیا تک اس ذلت میں ہی ڈوبے رہے۔ اس کا بیان اس آیت میں ہے کہ اگر انہیں خفیہ تدبیریں کرنی آتی ہیں تو کیا ہم خفیہ تدبیر کرنا نہیں جانتے بلکہ ہم تو ان سے بہتر خفیہ تدبیریں کرنے والے ہیں۔
Lord we believe in what You have revealed of the Gospel and we follow the Messenger Jesus; inscribe us therefore with those who bear witness’ to Your Oneness and to the truthfulness of Your Messenger.