تفسیر ابن کثیر
Tafsir Ibn Kathir —
حافظ ابن کثیر
قبطیوں کا انجام ارشاد ہوتا ہے کہ ان مشرکین سے پہلے مصر کے قبطیوں کو ہم نے جانچا ان کی طرف اپنے بزرگ رسول حضرت موسیٰ کو بھیجا انہوں نے میرا پیغام پہنچایا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ کردو انہیں دکھ نہ دو میں اپنی نبوت پر گواہی دینے والے معجزے اپنے ساتھ لایا ہوں اور ہدایت کے ماننے والے سلامتی سے رہیں گے مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی کا امانت دار بنا کر تمہاری طرف بھیجا ہے میں تمہیں اس کا پیغام پہنچا رہا ہوں تمہیں رب کی باتوں کے ماننے سے سرکشی نہ کرنی چاہئے اس کے بیان کردہ دلائل و احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔ اس کی عبادتوں سے جی چرانے والے ذلیل و خوار ہو کر جہنم واصل ہوتے ہیں میں تو تمہارے سامنے کھلی دلیل اور واضح آیت رکھتا ہوں میں تمہاری بدگوئی اور اہتمام سے اللہ کی پناہ لیتا ہوں۔ ابن عباس اور ابو صالہ تو یہی کہتے ہیں اور قتادہ کہتے ہیں مراد پتھراؤ کرنا پتھروں سے مار ڈالنا ہے یعنی زبانی ایذاء سے اور دستی ایذاء سے میں اپنے رب کی جو تمہارا بھی مالک ہے پناہ چاہتا ہوں اچھا اگر تم میری نہیں مانتے مجھ پر بھروسہ نہیں کرتے اللہ پر ایمان نہیں لاتے تو کم از کم میری تکلیف دہی اور ایذاء رسانی سے تو باز رہو۔ اور اس کے منتظر رہو جب کہ خود اللہ ہم میں تم میں فیصلہ کر دے گا پھر جب اللہ کے نبی کلیم اللہ حضرت موسیٰ نے ایک لمبی مدت ان میں گذاری خوب دل کھول کھول کر تبلیغ کرلی ہر طرح کی خیر خواہی کی ان کی ہدایت کے لئے ہرچند جتن کر لئے اور دیکھا کہ وہ روز بروز اپنے کفر میں بڑھتے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے انکے لئے بددعا کی جیسے اور آیت میں ہے کہ حضرت موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب تو نے فرعون اور اس کے امراء کو دنیوی نمائش اور مال و متاع دے رکھی ہے اے اللہ یہ اس سے دوسروں کو بھی تیری راہ سے بھٹکا رہے ہیں تو ان کا مال غارت کر اور ان کے دل اور سخت کر دے تاکہ دردناک عذابوں کے معائنہ تک انہیں ایمان نصیب ہی نہ ہو اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ اے موسیٰ اور اے ہارون میں نے تمہاری دعا قبول کرلی اب تم استقامت پر تل جاؤ یہاں فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ سے کہا کہ میرے بندوں یعنی بنی اسرائیل کو راتوں رات فرعون اور فرعونیوں کی بیخبر ی میں یہاں سے لے کر چلے جاؤ۔ یہ کفار تمہارا پیچھا کریں گے لیکن تم بےخوف و خطر چلے جاؤ میں تمہارے لئے دریا کو خشک کر دوں گا اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کو لے کر چل پڑے فرعونی لشکر مع فرعون کے ان کے پکڑنے کو چلا بیچ میں دریا حائل ہوا آپ بنی اسرائیل کو لے کر اس میں اتر گئے دریا کا پانی سوکھ گیا اور آپ اپنے ساتھیوں سمیت پار ہوگئے تو چاہا کہ دریا پر لکڑی مار کر اسے کہہ دیں کہ اب تو اپنی روانی پر آجا تاکہ فرعون اس سے گزر نہ سکے وہیں اللہ نے وحی بھیجی کہ اسے اسی حال میں سکون کے ساتھ ہی رہنے دو ساتھ ہی اس کی وجہ بھی بتادی کہ یہ سب اسی میں ڈوب مریں گے۔ پھر تو تم سب بالکل ہی مطمئن اور بےخوف ہوجاؤ گے غرض حکم ہوا تھا کہ دریا کو خشک چھوڑ کر چل دیں (رھواً) کے معنی سوکھا راستہ جو اصلی حالت پر ہو۔ مقصد یہ ہے کہ پار ہو کہ دریا کو روانی کا حکم نہ دینا یہاں تک کہ دشمنوں میں سے ایک ایک اس میں آ نہ جائے اب اسے جاری ہونے کا حکم ملتے ہی سب کو غرق کر دے گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو کیسے غارت ہوئے۔ باغات کھتیاں نہریں مکانات اور بیٹھکیں سب چھوڑ کر فنا ہوگئے حضرت عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں مصر کا دریائے نیل مشرق مغرب کے دریاؤں کا سردار ہے اور سب نہریں اس کے ماتحت ہیں جب اس کی روانی اللہ کو منظور ہوتی ہیں تو تمام نہروں کو اس میں پانی پہنچانے کا حکم ہوتا ہے جہاں تک رب کو منظور ہو اس میں پانی آجاتا ہے پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اور نہروں کو روک دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ اب اپنی اپنی جگہ چلی جاؤ اور فرعونیوں کے یہ باغات دریائے نیل کے دونوں کناروں پر مسلسل چلے گئے تھے رسواں سے لے کر رشید تک اس کا سلسلہ تھا اور اس کی نو خلیجیں تھیں۔ خلیج اسکندریہ، دمیاط، خلیج سردوس، خلیج منصف، خلیج منتہی اور ان سب میں اتصال تھا ایک دوسرے سے متصل تھیں اور پہاڑوں کے دامن میں ان کی کھیتیاں تھیں جو مصر سے لے کر دریا تک برابر چلی آتی تھیں ان تمام کو بھی دریا سیراب کرتا تھا بڑے امن چین کی زندگی گذار رہے تھے لیکن مغرور ہوگئے اور آخر ساری نعمتیں یونہی چھوڑ کر تباہ کر دئیے گئے۔ مال اولاد جاہ و مال سلطنت و عزت ایک ہی رات میں چھوڑ گئے اور بھس کی طرح اڑا دئیے گئے اور گذشتہ کل کی طرح بےنشان کر دئیے گئے ایسے ڈبوئے گئے کہ ابھر نہ سکے جہنم واصل ہوگئے اور بدترین جگہ پہنچ گئے ان کی یہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دے دیں۔ جیسے اور آیت میں فرمایا ہے کہ ہم نے ان کمزوروں کو ان کے صبر کے بدلے اس سرکش قوم کی کل نعمتیں عطا فرمادیں اور بےایمانوں کا بھرکس نکال ڈالا یہاں بھی دوسری قوم جسے وارث بنایا اس سے مراد بھی بنی اسرائیل ہیں پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ان پر زمین و آسمان نہ روئے کیونکہ ان پاپیوں کے نیک اعمال تھے ہی نہیں جو آسمانوں پر چڑھتے ہوں اور اب ان کے نہ چڑھنے کی وجہ سے وہ افسوس کریں نہ زمین میں ان کی جگہیں ایسی تھیں کہ جہاں بیٹھ کر یہ اللہ کی عبادت کرتے ہوں اور آج انہیں نہ پا کر زمین کی وہ جگہ ان کا ماتم کرے انہیں مہلت نہ دی گئی۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے ہر بندے کے لئے آسمان میں دو دروازے ہیں ایک سے اس کی روزی اترتی ہے دوسرے سے اس کے اعمال اور اس کے کلام چڑھتے ہیں۔ جب یہ مرجاتا ہے اور وہ عمل و رزق کو گم شدہ پاتے ہیں تو روتے ہیں پھر اسی آیت کی حضور ﷺ نے تلاوت کی ابن ابی حاتم میں فرمان رسول ﷺ ہے کہ اسلام غربت سے شروع ہوا اور پھر غربت پر آجائے گا یاد رکھو مومن کہیں انجام مسافر کی طرح نہیں مومن جہاں کہیں سفر میں ہوتا ہے جہاں اس کا کوئی رونے والا نہ ہو وہاں بھی اس کے رونے والے آسمان و زمین موجود ہیں پھر حضور ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا یہ دونوں کفار پر روتے نہیں حضرت علی سے کسی نے پوچھا کہ آسمان و زمین کبھی کسی پر روئے بھی ہیں ؟ آپ نے فرمایا آج تو نے وہ بات دریافت کی ہے کہ تجھ سے پہلے مجھ سے اس کا سوال کسی نے نہیں کیا۔ سنو ہر بندے کے لئے زمین میں ایک نماز کی جگہ ہوتی ہے اور ایک جگہ آسمان میں اس کے عمل کے چڑھنے کی ہوتی ہے اور آل فرعون کے نیک اعمال ہی نہ تھے اس وجہ سے نہ زمین ان پر روئی نہ آسمان کو ان پر رونا آیا اور نہ انہیں ڈھیل دی گئی کہ کوئی نیکی بجا لاسکیں، حضرت ابن عباس سے یہ سوال ہوا تو آپ نے بھی قریب قریب یہی جواب دیا بلکہ آپ سے مروی ہے کہ چالیس دن تک زمین مومن پر روتی رہتی ہے حضرت مجاہد نے جب یہ بیان فرمایا تو کسی نے اس پر تعجب کا اظہار کیا آپ نے فرمایا سبحان اللہ اس میں تعجب کی کونسی بات ہے جو بندہ زمین کو اپنے رکوع و سجود سے آباد رکھتا تھا جس بندے کی تکبیر و تسبیح کی آوازیں آسمان برابر سنتا رہا تھا بھلا یہ دونوں اس عابد اللہ پر روئیں گے نہیں ؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں فرعونیوں جیسے ذلیل و خوار لوگوں پر یہ کیوں روتے ؟ حضرت ابراہیم فرماتے ہیں دنیا جب سے رچائی گئی ہے تب سے آسمان صرف دو شخصوں پر رویا ہے ان کے شاگرد سے سوال ہوا کہ کیا آسمان و زمین ہر ایمان دار پر روتے نہیں ؟ فرمایا صرف اتنا حصہ جس حصے سے اس کا نیک عمل چڑھتا تھا سنو آسمان کا رونا اس کا سرخ ہونا اور مثل نری کے گلابی ہوجانا ہے سو یہ حال صرف دو شخصوں کی شہادت پر ہوا ہے۔ حضرت یحییٰ کے قتل کے موقعے پر تو آسمان سرخ ہوگیا اور خون برسانے لگا اور دوسرے حضرت حسین کے قتل پر بھی آسمان کا رنگ سرخ ہوگیا تھا (ابن ابی حاتم) یزید ابن ابو زیاد کا قول ہے کہ قتل حسین کی وجہ سے چار ماہ تک آسمان کے کنارے سرخ رہے اور یہی سرخی اس کا رونا ہے حضرت عطا فرماتے ہیں اس کے کناروں کا سرخ ہوجانا اس کا رونا ہے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قتل حسین کے دن جس پتھر کو الٹا جاتا تھا اس کے نیچے سے منجمند خون نکلتا تھا۔ اس دن سورج کو بھی گہن لگا ہوا تھا آسمان کے کنارے بھی سرخ تھے اور پتھر گرے تھے۔ لیکن یہ سب باتیں بےبنیاد ہیں اور شیعوں کے گھڑے ہوئے افسانے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ نواسہ رسول ﷺ کی شہادت کا واقعہ نہایت درد انگیز اور حسرت و افسوس والا ہے لیکن اس پر شیعوں نے جو حاشیہ چڑھایا ہے اور گھڑ گھڑا کر جو باتیں پھیلا دی ہیں وہ محض جھوٹ اور بالکل گپ ہیں۔ خیال تو فرمائیے کہ اس سے بہت زیادہ اہم واقعات ہوئے اور قتل حسین سے بہت بڑی وارداتیں ہوئیں لیکن ان کے ہونے پر بھی آسمان و زمین وغیرہ میں یہ انقلاب نہ ہوا۔ آپ ہی کے والد ماجد حضرت علی بھی قتل کئے گئے جو بالاجماع آپ سے افضل تھے لیکن نہ تو پتھروں تلے سے خون نکلا اور کچھ ہوا۔ حضرت عثمان بن عفان کو گھیر لیا جاتا ہے اور نہایت بےدردی سے بلاوجہ ظلم و ستم کے ساتھ انہیں قتل کیا جاتا ہے فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب کو صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے نماز کی جگہ ہی قتل کیا جاتا ہے یہ وہ زبردست مصیبت تھی کہ اس سے پہلے مسلمان کبھی ایسی مصیبت نہیں پہنچائے گئے تھے لیکن ان واقعات میں سے کسی واقعہ کے وقت اب میں سے ایک بھی بات نہیں جو شیعوں نے مقتل حسین کی نسبت مشہور کر رکھی ہے۔ ان سب کو بھی جانے دیجئے تمام انسانوں کے دینی اور دنیوی سردار سید البشر رسول اللہ ﷺ کو لیجئے جس روز آپ رحلت فرماتے ہیں ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا اور سنئے جس روز حضور ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوتا ہے اتفاقاً اسی روز سورج گہن ہوتا ہے اور کوئی کہہ دیتا ہے کہ ابراہیم کے انتقال کی وجہ سورج کو گہن لگا ہے۔ تو حضور ﷺ گہن کی نماز ادا کر کے فوراً خطبے پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور فرماتے ہیں سورج چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت زندگی کی وجہ سے انہیں گہن نہیں لگتا اس کے بعد کی آیت میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر اپنا احسان جتاتا ہے کہ ہم نے انہیں فرعون جیسے متکبر حدود شکن کے ذلیل عذابوں سے نجات دی اس نے بنی اسرائیل کو پست و خوار کر رکھا تھا ذلیل خدمتیں ان سے لیتا تھا اور اپنے نفس کو تولتا رہتا تھا خودی اور خود بینی میں لگا ہوا تھا بیوقوفی سے کسی چیز کی حد بندی کا خیال نہیں کرتا تھا اللہ کی زمین میں سرکشی کئے ہوئے تھا۔ اور ان بدکاریوں میں اس کی قوم بھی اس کے ساتھ تھی پھر بنی اسرائیل پر ایک اور مہربانی کا ذکر فرما رہا ہے کہ اس زمانے کے تمام لوگوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ہر زمانے کو عالم کہا جاتا ہے یہ مراد نہیں کہ تمام اگلوں پچھلوں پر انہیں بزرگی دی یہ آیت بھی اس آیت کی طرح ہے جس میں فرمان ہے آیت (قَالَ يٰمُوْسٰٓي اِنِّى اصْطَفَيْتُكَ عَلَي النَّاسِ بِرِسٰلٰتِيْ وَبِكَلَامِيْ ڮ فَخُذْ مَآ اٰتَيْتُكَ وَكُنْ مِّنَ الشّٰكِرِيْنَ01404) 7۔ الاعراف :144) اس سے بھی یہی مطلب ہے کہ اس زمانے کی تمام عورتوں پر آپ کو فضیلت ہے اس لئے کہ ام المومنین حضرت خدیجہ ان سے یقینا افضل ہیں یا کم ازکم برابر۔ اسی طرح حضرت آسیہ بنت مزاحم جو فرعون کی بیوی تھیں اور ام المومنین حضرت عائشہ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسی فضیلت شوربے میں بھگوئی روٹی کی اور کھانوں پر پھر بنی اسرائیل پر ایک اور احسان بیان ہو رہا ہے کہ ہم نے انہیں وہ حجت وبرہان دلیل و نشان اور معجزات و کرامات عطا فرمائے جن میں ہدایت کی تلاش کرنے والوں کے لئے صاف صاف امتحان تھا۔
فی ظلال القرآن
Fi Zilal al-Quran —
سید ابراہیم قطب
آیت نمبر 17 تا 33
اس وادی کے دروازے ہی پر یہ خوفناک اعلان لکھا ہوا ہے کہ یاد رکھو ، کسی قوم کی طرف رسول کا بھیجا جانا اس کی آزمائش ہوتی ہے۔ مکذبین کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ وقت بہت تھورا ہے ، اس میں تم تکذیب بھی کرسکتے ہو ، تکبر اور غرور بھی کرسکتے ہو۔ رسول کو ایذا بھی دے سکتے ہو ، تکبر اور غرور بھی کرسکتے ہو۔ رسول کو ایذا بھی دے سکتے ہو ، مومنین پر ظلم و ستم بھی ڈھا سکتے ہو لیکن آخر میں غرور کا سر نیچا ہوتا ہے اور تم جو رسول اللہ ﷺ کو طیش دلاتے ہو ، ان کا پیمانہ صبر لبریز کرتے ہو ، لیکن آپ ﷺ بدستور صبر کا پیکر بنے ہوئے ہیں اور تمہاری ہدایت ہی کے امیدوار ہیں ، اس کا انجام برا بھی ہو سکتا ہے اور تم فرعون کی طرح سخت پکڑ میں بھی آسکتے ہو۔
ولقد فتنا قبلھم قوم فرعون (44 : 17) “ ہم اس سے قبل فرعون کی قوم کو اس آزمائش میں ڈال چکے ہیں ”۔ ان کو نعمتیں دے کر اور بادشاہت دے کر اور زمین میں نہایت ہی تمکنت دے کر آزما چکے ہیں۔ اور پھر خوشحالی ، دولت کے اسباب اور سر بلندی میں ان کو طویل مہلت بھی دی گئی :
وجاءھم رسول کریم (44 : 17) “ اور ان کے پاس ایک نہایت ہی شریف رسول آیا ”۔ اور یہ بھی آزمائش کا ایک پہو تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم نے ان سے کیا بات تسلیم کرنے کے لئے کہا تھا۔ آپ نے ان سے کوئی بات چیز اپنے لیے طلب نہ کی تھی۔ آپ ان کو اللہ کی طرف بلاتے تھے اور آپ کا مطالبہ یہ تھا کہ ہر بات اللہ کے لئے ادا کرو اور کوئی چیز بخل کرکے اللہ کے مقابلے میں اپنے لیے نہ رکھو۔
ان ادوا ۔۔۔۔۔ رسول امین (44 : 18) وان لا تعلوا ۔۔۔۔۔ مبین (44 : 19) وانی عذت ۔۔۔۔۔ ترجمون (44 : 20) وان لم ۔۔۔۔ فاعتزلون (44 : 21) کہ “ اللہ بندو ! سب کچھ میرے حوالے کر دو ” یا “ اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کرو ، میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ اللہ کے مقابلے میں سر کشی نہ کرو۔ میں تمہارے سامنے (اپنی ماموریت کی) صریح سند پیش کرتا ہوں اور میں اپنے رب اور تمہارے رب کی پناہ لے چکا ہوں ، اس سے کہ تم مجھ پر حملہ آور ہو۔ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ پر ہاتھ ڈالنے سے باز رہو ”۔ یہ ہے وہ مختصر دعوت جسے رسول کریم یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لے کر آئے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ تم کلی طور پر اللہ کے سامنے سر تسلیم ختم کردو ، پوری ادائیگی کرو ، اور سب کچھ اللہ کے لئے دو ، جس کے تم بندے ہو ، بندوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اللہ کے مقابلے میں سرکشی کریں۔ یہ اللہ کی دعوت ہے اور ایک شریف رسول لے کر تمہارے پاس آیا ہے اور اس کے پاس رسول ہونے کی سند بھی ہے۔ ایک مضبوط اور قوی دلیل ہے۔ اگر کھلے دل سے غور کیا جائے تو ایسے براہین پر یقین آنا چاہئے۔ آپ ان کے تشدد کے مقابلے میں اللہ کی پناہ لیتے ہیں کہ وہ آپ کو پکڑ کر رجم کردیں۔ اگر وہ ایمان کا انکار کرتے ہیں اور رسول سے الگ ہوتے ہیں تو آپ ان کو یہ پیشکش کرتے ہیں کہ میں بھی تم سے علیحدہ ہوجاؤں گا۔ اور یہ ایک نہایت ہی منصفانہ بات ہے کہ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو میری راہ نہ روکو۔
اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے۔
ان ادوا الی عباد اللہ (44 : 18) “ کہ اللہ کے بندوں (بنی اسرائیل ) کو میرے حوالے کر دو ” اور ان کو تشدد اور ظلم کا نشانہ نہ بناؤ۔ دوسری جگہ تصریح آئی ہے۔
ان ارسل معنا بنی اسرائیل ” یہ کہ ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دو “ ۔ لیکن سرکشوں نے کبھی بھی کسی کے معقول اور منصفانہ مطالبات نہیں مانے ۔ سرکش سچائی کو آزاد دیکھنا پسند نہیں کرتے کہ وہ سہولت کے ساتھ عوام تک پہنچ جائے ، چناچہ ہر سرکش سچائی کو اپنی گرفت میں لینا پسند کرتا ہے اور کبھی اس کے ساتھ مصالحت نہیں کرتا۔ کیونکہ سرکشوں اور سچائی کے درمیان اگر صلح ہوجائے تو پھر سچائی تو چھانے لگتی ہے۔ اور عوام کے دل و دماغ کو فتح کرتی چلی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باطل حق پر ہاتھ ڈالتا ہے۔ اہل حق کو رجم کرتا ہے۔ وہ حق کو الگ بھی رہنے نہیں دیتا کہ وہ صحیح سلامت اور آرام سے رہے۔
یہاں سیاق کلام میں قصے کی کئی کڑیوں کو مختصر کر کے پیش کیا گیا ہے تا کہ قارئین کو جلد انجام تک پہنچایا جائے ، جبکہ آزمائش انتہا کو پہنچ جائے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) محسوس کردیں کہ یہ لوگ دعوت کو ہرگز قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ اور نہ اس کے لئے تیار ہیں کہ ہمیں گوارا کر کے اپنا کام کرنے دیں۔ اور آپ کو معلوم ہوجائے کہ ان کی مجرمانہ ذہنیت بہت ہی گہری اور ٹھوس ہے اور ان کی اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے۔ اور وہ اس ذہنیت کو چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ یہاں آکر پھر اپنے رب کے ہاں آخری پکار کرتے ہیں اور مکمل طور پر اس کی پناہ میں آجاتے ہیں۔
فدعا ربہ ان ھولاء قوم مجرمون (44 : 22) ” آخر کار انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ یہ لوگ مجرم ہیں “۔ آخرت ایک رسول اس کے سوا اور کیا کرسکتا ہے کہ وہ اپنی جدو جہد کی پوری کمائی لے کر اپنے رب کے دربار میں پیش کر دے اور اسے اللہ کے سامنے رکھ دے اور اگلا اقدام اللہ پر چھوڑ دے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے بارے میں جو تبصرہ اور رپورٹ کی تھی ، اللہ نے اسے قبول کرلیا کہ یہ درست ہے کہ یہ لوگ فی الواقع مجرم ہیں۔
فاسر بعبادی لیلا انکم متبعون (44 : 23) واترک البحر رھوا انھم جند مغرقون (44 : 24) ” اچھا تو راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑو تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا۔ سمندر کو اس کے حال پر چھوڑ دے۔ یہ سارا لشکر غرق ہونے والا ہے “۔ السری اس سفر کو کہتے ہیں جو رات کے وقت ہو ، اس کے بعد ” لیلا “ کا لفظ منظر کو دوبارہ ذہن میں لاتا ہے کہ اللہ کے کچھ بندے بنی اسرائیل رات کے وقت سفر میں ہیں۔ یہ لفظ اس وقت راز داری کی فضا کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے ۔ کیونکہ ان کا یہ شبینہ سفر دراصل تھا ہی فرعون سے خفیہ اور حکومت کی لاعلمی سے تھا۔ ” الرہو “ کے معنی ہوتے ہیں سکون کے۔ یہاں اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ آپ اور آپ کی قوم گزر جائیں اور اپنے پیچھے سمندر کو سکون کی حالت میں چھوڑ دیں۔ ایسی ہی حالت پر جس میں آپ اس سے گزرے تا کہ فرعون اور اس کی فوج دھوکہ کھا کر تمہارا پیچھا کرے اور اس طرح اللہ کا حکم پورا ہوجائے۔ انھم جند مغرقون (44 : 24) ” یہ سارا لشکر غرق ہونے والا ہے “۔ یوں اللہ کی تقدیر کا فیصلہ اسباب ظاہریہ کے مطابق پورا ہوا ، اور یہ اسباب بھی در حقیقت اللہ کے فیصلے ہی کا حصہ ہوتے ہیں۔
یہاں سیاق کلام میں فرعون کی غرقابی کے واقعات کو مجمل چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ بطور فیصلہ یہ کہہ دیا گیا کہ یہ غرق ہونے والا لشکر ہے۔ اب اس منظر کو چھوڑ کر اس پر تبصرہ کیا جاتا ہے اور یہ تبصرہ بھی ایک زبردست منظر ہے جو سرکش اور متکبر فرعون اور اس کے سرداروں کی زبوں حالی کی داستان ہے۔ یہی لوگ تھے جو اسے ظلم اور سرکشی پر آمادہ رکھتے تھے۔ ان کا ہلاک و برباد کرنا ، اللہ کے لئے کس قدر سہل رہا۔ اپنی اس حیثیت کے ساتھ وہ غرور کرتا تھا۔ اور اس کے یہ پیروکار اس پر نثار ہوتے تھے۔ حالانکہ یہ سب لوگ اس قدر چھوٹے اور اس قدر معمولی تھے کہ اس کائنات نے ان کی غرقابی کا کوئی احساس ہی نہ کیا۔ فرعون سے سب کچھ چھین لیا گیا اور کوئی رونے والا نہ تھا۔ کسی نے بھی اس کی اس بربادی پر مرتبہ نہ لکھا ، نہ زمین نے ، نہ آسمان نے۔
کم ترکوا من جنت وعیون (44 : 25) وزروع و مقام کریم (44 : 26) ونعمۃ کانوا فیھا فکھین (44 : 27) کذلک وارثنھا قوما اخرین (44 : 28) فما بکت علیھم ۔۔۔۔۔۔ منظرین (44 : 29) ” کتنے ہی باغ اور چشمے اور کھیت اور شاندار محل تھے جو وہ چھوڑ گئے ۔ کتنے ہی عیش کے سروسامان ، جن میں وہ مزے کر رہے تھے ، ان کے پیچھے دھرے رہ گئے۔ یہ ہوا ان کا انجام ، اور ہم نے دوسروں کو ان چیزوں کا وارث بنا دیا۔ پھر نہ آسمان ان پر رویا ، نہ زمین اور ذرا سی مہلت بھی ان کو نہ دی گئی “۔ اس منظر میں وہ انعامات بھی دکھائے گئے ہیں جن میں وہ داد عیش دیتے تھے۔ باغات ، چشمے ، قسم قسم کی زراعت ، بڑے بڑے محل ، جہاں ان کو بڑا اعزاز ملا ہوا تھا۔ ان نعمتوں میں کھاتے پیتے اور داد عیش دیتے تھے اور مسرور اور مست تھے۔
اس کے بعد ان سے یہ سب کچھ چھین لیا جاتا ہے اور دوسری اقوام کو ان کا وارث بنا دیا جاتا ہے اور دوسری جگہ یوں کہا گیا ہے۔
کذلک واورثنھا بنی اسرائیل ” یونہی ، اور وارث بنا دیا ہم نے ان چیزوں کا بنی اسرائیل کو “۔ بنی اسرائیل تو فرعون کی بادشاہت کے وارث نہ بنائے گئے تھے لیکن فلسطین میں ان کو زبردست عروج نصیب ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ اسی قسم کی نعمتوں کا ان کو وارث بنایا گیا جیسی فرعونیوں سے چھینی گئی تھیں۔
پھر کیا ہوا ، فرعون اور اس کے سردار نیست و نابود ہوگئے۔ ایک وقت تھا کہ اس زمین پر وہ لوگوں کی آنکھ کا تارا تھا اور لوگوں کے دلوں میں ان کا بےحد رعب تھا ، یا یہ وقت ہے کہ ان کے نیست و نابود ہونے پر کوئی آنکھ نہیں روئی۔ نہ آسمان کو اس احساس ہوا اور نہ زمین کو ، نہ ان کو مہلت ملی اور ان کے معاملے کو اٹھا کر رکھا گیا۔
فما بکت علیھم السماء والارض وما کانوا منظرین (44 : 29) ” نہ آسمان ان پر رویا اور نہ زمین اور ذرا سی مہلت بھی ان کو نہ دی گئی “۔ یہ ایک ایسا انداز تعبیر ہے جو ان کی کسمپری اور دنیا کی بےوفائی اور آنکھیں پھیر لینے کو ظاہر لینے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سرکش اور مغرور لوگ اس دنیا سے چلے گئے اور ان کے لئے رونے والی آنکھ نہ زمین و آسمان میں کوئی نہ تاسف کا اظہار کرتا ، وہ اس طرح چلے گئے جس طرح کوئی چیونٹیوں کو روند ڈالے۔ جبکہ وہ اس قدر جبار وقہار تھے کہ انسانوں کو چیونٹیوں کی طرح روندتے چلے جاتے تھے۔ یہ کیوں ہوا ، اس لیے کہ یہ اس کائنات سے منقطع تھے۔ یہ پوری کائنات مسلم تھی اور یہ کافر تھے ، یہ خبیث ، دھتکارے ہوئے اور شریر لوگ تھے اور یہ پوری کائنات ان سے نفرت کرتی تھی۔ اس دنیا کے ڈکٹیٹر اگر ان باتوں کو سمجھتے اور ان ہدایات کو اپناتے جو ان آیات میں ہیں تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ وہ اس کائنات میں کتنے ہلکے ہیں اور اللہ کے ہاں وہ کس قدر ہلکے ہیں ۔ اور ان کو یہ معلوم ہوتا کہ وہ اس زمین پر نہایت ہی تنہا ، دھتکارے ہوئے اور پوری کائنات اور خالق کائنات سے کٹے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں ، یہ کیوں اس لیے کہ وہ ایمانی رابطوں سے کٹے ہوئے اور مجرم ہیں۔
اور ان کے ان برے دنوں کے مقابلے میں اہل ایمان کی عزت اور تکریم :
ولقد نجینا۔۔۔۔۔ المھین (44 : 30) من فرعون ۔۔۔۔۔ المسرفین (44 : 31) ولقد اخترنھم علم علی العلمین (44 : 32) واتینھم من الایت ما فیہ بلوا مبین (44 : 33) ” اس طرح بنی اسرائیل کو ہم نے سخت ذلت کے عذاب ، فرعون سے نجات دی جو حد سے گزر جانے والوں میں فی الواقع بڑے اونچے درجے کا آدمی تھا ، اور ان کی حالت جانتے ہوئے ان کو دنیا کی دوسری قوموں پر ترجیح دی ، اور انہیں ایسی نشانیاں دکھائیں جن میں صریح آزمائش تھی “۔
یہاں توہین آمیز عذاب سے بنی اسرائیل کی نجات کا ذکر ہے۔ جبکہ یہ عذاب دینے والے جباروں کو نیست و نابود کردیا گیا ۔ جو کبرو غرور کرنے والے اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والے تھے۔
من فرعون انہ کان عالیا من المسرفین (44 : 31) ” فرعون سے جو حد سے گزرنے والوں میں فی الواقع اونچے درجے کا آدمی تھا “۔
اس کے بعد اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دوسری قوموں پر ترجیح دی اور ان کی حقیقت کو جانتے ہوئے دی۔ ان کی اچھائی بھی ہماری نظروں میں تھی اور ان کا شر بھی ہماری نظروں میں تھا۔ اس لیے ان کو اپنے دور میں تمام اقوام پر سربلند کردیا ، کیونکہ اللہ کو معلوم تھا کہ اپنے زمانے کی اقوام میں یہ اعلیٰ و افضل اور برتر ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض اوقات اپنی نصرت ، اور امداد سے اس قوم کو بھی نوازتا ہے جو اپنے اہل زمانہ سے افضل ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ لوگ ایمان و یقین میں اعلیٰ معیار تک نہ پہنچے ہوئے ہیں۔ بشرطیکہ ان کی قیادت اچھی ہو اور ان کو ہدایت ، علم اور بصیرت کے ساتھ اور ثابت قدمی کے ساتھ بلندی کی طرف لے جارہی ہو۔
واتینھم من الایت ما فیہ بلؤا مبین (44 : 33) ” اور انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی “۔ اس طرح ان نشانیوں کے ذریعہ ان کو آزمایا گیا ۔ جب ان کا امتحان اور ان کی آزمائش پوری ہوگئی اور ان کی خلافت اور اقوام عالم پر ترجیح کا زمانہ ختم ہوگیا تو ان کے انحراف اور گمراہی کی وجہ سے ان کو پکڑا گیا اور ان پر دوسری اقوام کو مسلط کردیا گیا ، پھر ان کو بار بار ملک بدری کا سامنا کرنا پڑا اور خواری لکھ دی گئی اور ان کو کہہ دیا گیا کہ جب بھی تم حد سے بڑھے اور سرکشی اختیار کی تو تمہیں ذلیل و خوار کیا جائے گا۔ یہ حالت تمہاری قیامت تک ہوگی۔
٭٭٭
فرعون اور اس کے سرداروں کی ہلاکت خیز سفر کے مشاہدات کے بعد جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کی قوم کو بات دی گئی اور اس کے ان کو آزمایا گیا۔ اب دوبارہ مشرکین کے عقیدہ بعث بعد الموت کی طرف بات کا رخ ہوتا ہے۔ یہ لوگ مرنے کے بعد اٹھائے جانے میں شک کرتے تھے بلکہ انکار کرتے تھے۔ اس موضوع کو دوبارہ اس زاویہ سے لیا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد اٹھایا جانا اس کائنات کے اصل نقشے کا حصہ ہے کیونکہ یہ حق ہے اور اس کائنات کا وجود ہی حق پر ہے اور حق کا تقاضا ہے کہ موت کے بعد لوگوں کو اٹھایا جائے۔