And the one who said to his parents, “Uff – I am fed up with both of you! What! You promise me that I will be raised again whereas generations have passed away before me?” And they both seek Allah’s help and say to him, “May you be ruined, accept faith! Indeed Allah’s promise is true”; he therefore answers, “This is nothing except stories of former people.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
والذي قال لوالديه إذ دعواه إلى الإيمان بالله والإقرار بالبعث: قبحًا لكما أتعِدانني أن أُخْرج من قبري حيًا، وقد مضت القرون من الأمم من قبلي، فهلكوا فلم يُبعث منهم أحد؟ ووالداه يسألان الله هدايته قائلَين له: ويلك، آمن وصدِّق واعمل صالحًا، إن وعد الله بالبعث حق لا شك فيه، فيقول لهما: ما هذا الذي تقولانه إلا ما سطَّره الأولون من الأباطيل، منقول من كتبهم.
اس دنیا کے طالب آخرت سے محروم ہوں گے چونکہ اوپر ان لوگوں کا حال بیان ہوا تھا جو اپنے ماں باپ کے حق میں نیک دعائیں کرتے ہیں اور ان کی خدمتیں کرتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے اخروی درجات کا اور وہاں نجات پانے اور اپنے رب کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کا ذکر ہوا تھا۔ اس لئے اس کے بعد ان بدبختوں کا بیان ہو رہا ہے جو اپنے ماں باپ کے نافرمان ہیں انہیں باتیں سناتے ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق کے صاحبزادے حضرت عبدالرحمن کے حق میں نازل ہوئی ہے جیسے کہ عوفی بروایت ابن عباس بیان کرتے ہیں جس کی صحت میں بھی کلام ہے اور جو قول نہایت کمزور ہے اس لئے کہ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر تو مسلمان ہوگئے تھے اور بہت اچھے اسلام والوں میں سے تھے بلکہ اپنے زمانے کے بہترین لوگوں میں سے تھے بعض اور مفسرین کا بھی یہ قول ہے لیکن ٹھیک یہی ہے کہ یہ آیت عام ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ مروان نے اپنے خطبہ میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے امیر المومنین کو یزید کے بارے میں ایک اچھی رائے سمجھائی ہے اگر وہ انہیں اپنے بعد بطور خلیفہ کے نامزد کر جائیں تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بھی تو اپنے بعد خلیفہ مقرر کیا ہے اس پر حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر بول اٹھے کہ کیا ہرقل کے دستور پر اور نصرانیوں کے قانون پر عمل کرنا چاہتے ہو ؟ قسم ہے اللہ کی نہ تو خلیفہ اول نے اپنی اولاد میں سے کسی کو خلافت کے لئے منتخب کیا نہ اپنے کنبے قبیلے والوں سے کسی کو نامزد کیا اور معاویہ نے جو اسے کیا وہ صرف ان کی عزت افزائی اور ان کے بچوں پر رحم کھا کر کیا یہ سن کر مروان کہنے لگا کہ تو وہی نہیں جس نے اپنے والدین کو اف کہا تھا ؟ تو عبدالرحمن نے فرمایا کیا تو ایک ملعون شخص کی اولاد میں سے نہیں ؟ تیرے باپ پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی تھی۔ حضرت صدیقہ نے یہ سن کر مروان سے کہا تو نے حضرت عبدالرحمن سے جو کہا وہ بالکل جھوٹ ہے وہ آیت ان کے بارے میں نہیں بلکہ وہ فلاں بن فلاں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر مروان جلدی ہی منبر سے اتر کر آپ کے حجرے کے دروازے پر آیا اور کچھ باتیں کر کے لوٹ گیا بخاری میں یہ حدیث دوسری سند سے اور الفاظ کے ساتھ ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے مروان حجاز کا امیر بنایا گیا تھا اس میں یہ بھی ہے کہ مروان نے حضرت عبدالرحمن کو گرفتار کرلینے کا حکم اپنے سپاہیوں کو دیا لیکن یہ دوڑ کر اپنی ہمشیرہ صاحبہ ام المومنین حضرت عائشہ کے حجرے میں چلے گئے اس وجہ سے انہیں کوئی پکڑ نہ سکا۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت صدیقہ کبریٰ نے پردہ میں سے ہی فرمایا کہ ہمارے بارے میں بجز میری پاک دامنی کی آیتوں کے اور کوئی آیت نہیں اتری۔ نسائی کی روایت میں ہے کہ اس خطبے سے مقصود یزید کی طرف سے بیعت حاصل کرنا تھا حضرت عائشہ کے فرمان میں یہ بھی ہے کہ مروان اپنے قول میں جھوٹا ہے جس کے بارے میں یہ آیت اتری ہے مجھے بخوبی معلوم ہے لیکن میں اس وقت اسے ظاہر کرنا نہیں چاہتی لیکن ہاں رسول اللہ ﷺ نے مروان کے باپ کو ملعون کہا ہے اور مروان اس کی پشت میں تھا پس یہ اس اللہ تعالیٰ کی لعنت کا بقیہ ہے۔ یہ جہاں اپنے ماں باپ کی بےادبی کرتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی بےادبی سے بھی نہیں چوکتا مرنے کے بعد کی زندگی کو جھٹلاتا ہے اور اپنے ماں باپ سے کہتا ہے کہ تم مجھے اس دوسری زندگی سے کیا ڈراتے ہو مجھ سے پہلے سینکڑوں زمانے گزر گئے لاکھوں کروڑوں انسان مرے میں تو کسی کو دوبارہ زندہ ہوتے نہیں دیکھا ان میں سے ایک بھی تو لوٹ کر خبر دینے نہیں آیا۔ ماں باپ بیچارے اس سے تنگ آکر جناب باری سے اس کی ہدایت چاہتے ہیں اس بارگاہ میں اپنی فریاد پہنچاتے ہیں اور پھر اس سے کہتے ہیں کہ بدنصیب ابھی کچھ نہیں بگڑا اب بھی مسلمان بن جا لیکن یہ مغرور پھر جواب دیتا ہے کہ جسے تم ماننے کو کہتے ہو میں تو اسے ایک دیرینہ قصہ سے زیادہ وقعت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ اپنے جیسے گذشتہ جنات اور انسانوں کے زمرے میں داخل ہوگئے جنہوں نے خود اپنا نقصان بھی کیا اور اپنے والوں کو بھی برباد کیا اللہ تعالیٰ کے فرمان میں یہاں لفظ (اولئک) ہے حالانکہ اس سے پہلے لفظ (والذی) ہے اس سے بھی ہماری تفسیر کی پوری تائید ہوتی ہے کہ مراد اس سے عام ہے جو بھی ایسا ہو یعنی ماں باپ کا بےادب اور قیامت کا منکر اس کے لئے یہی حکم ہے چناچہ حضرت حسن اور حضرت قتادہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد کافر فاجر ماں باپ کا نافرمان اور مر کر جی اٹھنے کا منکر ہے، ابن عساکر کی ایک غریب حدیث میں ہے کہ چار شخصوں پر اللہ عزوجل نے اپنے عرش پر سے لعنت کی ہے اور اس پر فرشتوں نے آمین کہی ہے جو کسی مسکین کو بہکائے اور کہے کہ آؤ تجھے کچھ دوں گا اور جب وہ آئے تو کہہ دے کہ میرے پاس تو کچھ نہیں اور جو ماعون سے کہے سب حاضر ہے حالانکہ اس کے آگے کچھ نہ ہو۔ اور وہ لوگ جو کسی کو اس کے اس سوال کے جواب میں فلاں کا مکان کونسا ہے ؟ کسی دوسرے کا مکان بتادیں اور وہ جو اپنے ماں باپ کو مارے یہاں تک کہ تنگ آجائیں اور چیخ و پکار کرنے لگیں۔ پھر فرماتا ہے ہر ایک کے لئے اس کی برائی کے مطابق سزا ہے اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بلکہ اس سے بھی کم کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں جہنم کے درجے نیچے ہیں اور جنت کے درجے اونچے ہیں۔ پھر فرماتا ہے کہ جب جہنمی جہنم پر لا کھڑے کئے جائیں گے انہیں بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا کہ تم اپنی نیکیاں دنیا میں ہی وصول کرچکے ان سے فائدہ وہیں اٹھا لیا، حضرت عمر بن خطاب نے بہت زیادہ مرغوب اور لطیف غذا سے اسی آیت کو پیش نظر رکھ کر اجتناب کرلیا تھا اور فرماتے تھے مجھے خوف ہے کہیں میں بھی ان لوگوں میں سے نہ ہوجاؤں جنہیں اللہ تعالیٰ ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ یہ فرمائے گا۔ حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دنیا میں کی ہوئی اپنی نیکیاں قیامت کے دن گم پائیں گے اور ان سے یہی کہا جائے گا۔ پھر فرماتا ہے آج انہیں ذلت کے عذابوں کی سزا دی جائے گی ان کے تکبر اور ان کے فسق کی وجہ سے جیسا عمل ویسا ہی بدلہ ملا۔ دنیا میں یہ ناز و نعمت سے اپنی جانوں کو پالنے والے اور نخوت و بڑائی سے اتباع حق کو چھوڑنے والے اور برائیوں اور نافرمانیوں میں ہمہ تن مشغول رہنے والے تھے تو آج قیامت کے دن انہیں اہانت اور رسوائی والے عذاب اور سخت دردناک سزائیں اور ہائے وائے اور افسوس و حسرت کے ساتھ جہنم کے نیچے کے طبقوں میں جگہ ملے گی اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں ان سب باتوں سے محفوظ رکھے۔
As for him who says to his parents li-wālidayhi a variant reading has li-wālidihi ‘his parent’ denoting the generic noun ‘Fie read uffin or uffan as a verbal noun meaning ‘something putrid and disgusting’ on you both I am exasperated at both of you. Do you threaten me a-ta‘idāninī a variant reading has a-ta‘idānnī that I shall be raised from the grave when already generations communities have passed away before me?’ and they have not been raised from their graves. And they call on God for succour that he their child repent saying to him if you do not repent ‘Woe to you waylaka that is to say halākaka ‘you are ruined!’. Believe! in resurrection. Surely God’s promise is true’. But he says ‘This belief in resurrection is nothing but the fables of the ancients’ lies of theirs.