Created man from a clot. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
اقرأ -أيها النبي- ما أُنزل إليك من القرآن مُفْتَتِحًا باسم ربك المتفرد بالخلق، الذي خلق كل إنسان من قطعة دم غليظ أحمر. اقرأ -أيها النبي- ما أُنزل إليك، وإن ربك لكثير الإحسان واسع الجود، الذي علَّم خلقه الكتابة بالقلم، علَّم الإنسان ما لم يكن يعلم، ونقله من ظلمة الجهل إلى نور العلم.
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی وحی کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی اور جو خواب دیکھتے وہ صبح کے ظہور کی طرح ظاہر ہوجاتا پھر آپ نے گوشہ نشینی اور خلوت اختیار کی۔ ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ سے توشہ لے کر غار میں چلے جاتے اور کئی کئی راتیں وہی عبادت میں گذارا کرتے پھر آتے اور توشہ لے کر چلے جاتے یہاں تک کہ ایک مرتبہ اچانک وہیں شروع شروع میں وحی آیہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا اقرا یعنی پڑھئیے آپ فرماتے ہیں، میں نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ فرشتے نے مجھے دوبارہ دبوچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر چھوڑ دیا اور فرمایا پڑھو میں نے پھر یہی کہا کہ میں پڑھنے والا نہیں اس نے مجھے تیسری مرتبہ پکڑ کر دبایا اور تکلیف پہنچائی، پھر چھوڑ دیا اوراقرا باسم ربک الذی خلق سے مالم یعلمتک پڑھا۔ آپ ان آیتوں کو لیے ہوئے کانپتے ہوئے حضرت خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا مجھے کپڑا اڑھا دو چناچہ کپڑا اڑھا دیا یہاں تک کہ ڈر خوف جاتا رہا تو آپ نے حضرت خدیجہ سے سارا واقعہ بیان کیا اور فرمایا مجھے اپنی جان جانے کا خود ہے، حضرت خدیجہ نے کہا حضور آپ خوش ہوجائیے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہ کرے گا آپ صلہ رحمی کرتے ہیں سچی باتیں کرتے ہیں دوسروں کا بوجھ خود اٹھاتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق پر دوسروں کی مدد کرتے ہیں پھر حضرت خدیجہ آپ کرلے کر اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ بن قصی کے پاس آئیں جاہلیت کے زمانہ میں یہ نصرانی ہوگئے تھے عربی کتاب لکھتے تھے اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھیبہت بڑی عمر کے انتہائی بوڑھے تھے آنکھیں جا چکی تھیں حضرت خدیجہ نے ان سے کہا کہ اپنے بھتیجے کا واقعہ سنئے، ورقہ نے پوچھا بھتیجے ! آپ نے کیا دیکھا ؟ رسول اللہ ﷺ نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ ورقہ نے سنتے ہی کہا کہ یہی وہ راز داں فرشتہ ہے جو حضرت عیسیٰ کے پاس بھی اللہ کا بھیجا ہوا آیا کرتا تھا کاش کہ میں اس وقت جوان ہوتا، کاش کہ میں اس وقت زندہ ہوتا جبکہ آپ کو آپ کی قوم نکال دے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے تعجب سے سوال کیا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں ایک آپ کیا جتنے بھی لوگ آپ کی طرح نبوت سے سرفراز ہو کر آئے ان سب سے دشمنیاں کی گئیں۔ اگر وہ وقت میری زندگی میں آگیا تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا لیکن اس واقعہ کے بعد ورقہ بہت کم زندہ رہے ادھر وحی بھی رک کئی اور اس کے رکنے کا حضور ﷺ کو بڑا قلق تھا کئی مرتبہ آپ نے پہار کی چوٹی پر سے اپنے تئیں گرا دینا چاہا لیکن ہر وقت حضرت جبرائیل آجاتے اور فرما دیتے کہ اے محمد ﷺ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ ﷺ اس سے آپ کا قلق اور رنج و غم جاتا رہتا اور دل میں قدرے اطمینان پیدا ہوجاتا اور آرام سے گھر واپس آجاتے (مسند احمد) یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی بروایت زہری مروی ہے اس کی سند میں اس کے متن میں اس کے معانی میں جو کچھ بیان کرنا چاہیے تھا وہ ہم نے اپنی شرح بخاری میں پورے طور پر بیان کردیا ہے۔ اگر جی چاہا وہیں دیکھ لیا جائے والحمد اللہ۔ پس قرآن کریم کی باعتبار نزول کے سب سے پہلی آیتیں یہی ہیں یہی پہلی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر انعام کی اور یہی وہ پہلی رحمت ہے جو اس ارحم الراحمین نے اپنے رحم و کرم سے ہمیں دی اس میں تنبیہہ ہے انسان کی اول پیدائش پر کہ وہ ایک جمے ہوئے خون کی شکل میں تھا اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ احسان کیا اسے اچھی صورت میں پیدا کیا پھر علم جیسی اپنی خاص نعمت اسے مرحمت فرمائی اور وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا علم ہی کی برکت تھی کہ کل انسانوں کے باپ حضرت آدم ؑ فرشتوں میں بھی ممتاز نظر آئے علم کبھی تو ذہن میں ہی ہوتا ہے اور کبھی زبان پر ہوتا ہے اور کبھی کتابی صورت میں لکھا ہوا ہوتا ہے پس علم کی تین قسمیں ہوئیں ذہنی، لفظی اور رسمی اور سمی علم ذہنی اور لفظی کو مستلزم ہے لیکن وہ دونوں اسے مستلزم نہیں اسی لیے فرمایا کہ پڑھ ! تیرا رب تو بڑے اکرام والا ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور آدمی کو جو وہ نہیں جانتا تھا معلوم کرادیا۔ ایک اثر میں و ارد ہے کہ علم کو لکھ لیا کرو، اور اسی اثر میں ہے کہ جو شخص اپنے علم پر عمل کرے اسے اللہ تعالیٰ اس علم بھی وارث کردیتا ہے جسے وہ نہیں جانتا تھا۔
created man al-insān the generic from a blood-clot ‘alaq is the plural of ‘alaqa which is a small quantity of congealing blood.