In fact it has become clear to them what they used to hide before; and were they to be sent back, they would commit the same which they were forbidden to, and undoubtedly they are liars. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
ليس الأمر كذلك، بل ظهر لهم يوم القيامة ما كانوا يعلمونه من أنفسهم من صدق ما جاءت به الرسل في الدنيا، وإن كانوا يظهرون لأتباعه خلافه. ولو فرض أن أعيدوا إلى الدنيا فأمهلوا لرجعوا إلى العناد بالكفر والتكذيب. وإنهم لكاذبون في قولهم: لو رددنا إلى الدنيا لم نكذب بآيات ربنا، وكنا من المؤمنين.
کفار کا واویلا مگر سب بےسود کفار کا حال اور ان کا برا انجام بیان ہو رہا ہے کہ جب یہ جہنم کو وہاں کے طرح طرح کے عذابوں وہاں کی بدترین سزاؤں طوق و زنجیر کو دیکھ لیں گے اس وقت ہائے وائے مچائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کیا اچھا ہو کہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تاکہ وہاں جا کر نیکیاں کریں اللہ کی باتوں کو نہ جھٹلائیں اور پکے سچے موحد بن جائیں، حقیقت یہ ہے کہ جس کفر و تکذیب کو اور سختی و بےایمانی کو یہ چھپا رہے تھے وہ ان کے سامنے کھل گئی، جیسے اس سے اوپر کی آیتوں میں گزرا کہ اپنے کفر کا تھوڑی دیر پہلے انکار تھا اب یہ تمنا گویا اس انکار کے بعد کا اقرار ہے اور اپنے جھوٹ کا خود اعتراف ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس سچائی کو دنیا میں چھپاتے رہے اسے آج کھول دیں گے، چناچہ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون سے کہا تھا کہ تو بخوبی جانتا ہے کہ یہ تمام نشانیاں آسمان و زمین کے رب کی اتاری ہوئی ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ) 17۔ النمل :14) یعنی فرعونیوں کے دلوں میں تو کامل یقین تھا لیکن صرف اپنی بڑائی اور سنگدلی کی وجہ سے بہ بظاہر منکر تھے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد منافق ہوں جو ظاہرا مومن تھے اور دراصل کافر تھے اور یہ خبر جماعت کفار سے متعلق ہو۔ اگرچہ منافقوں کا وجود مدینے میں پیدا ہوا لیکن اس عادت کے موجود ہونے کی خبر مکی سورتوں میں بھی ہے۔ ملاحظہ ہو سورة عنکبوت جہاں صاف فرمان ہے آیت (وَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ) 29۔ العنکبوت :11) پس یہ منافقین دار آخرت میں عذابوں کو دیکھ لیں گے اور جو کفر و نفاق چھپا رہے تھے وہ آج ان پر ظاہر ہوجائیں گے، واللہ اعلم، اب ان کی تمنا ہوگی کاش کہ ہم دنیا کی طرف لوٹائے جائیں یہ بھی دراصل طمع ایمانی کی وجہ سے نہیں ہوگی بلکہ عذابوں سے چھوٹ جانے کے لئے ہوگی، چناچہ عالم الغیب اللہ فرماتا ہے کہ اگر یہ لوٹا دیئے جائیں جب بھی ان ہی نافرمانیوں میں پھر سے مشغول ہوجائیں گے۔ ان کا یہ قول کہ وہ رغبت ایمان کر رہے ہیں اب بھی غلط ہے۔ نہ یہ ایمان لائیں گے نہ جھٹلانے سے باز رہیں گے بلکہ لوٹنے کے بعد بھی وہی پہلا سبق رٹنے لگیں گے کہ بس اب تو یہی دنیا ہی زندگانی ہے، دوسری زندگی اور آخرت کوئی چیز نہیں۔ نہ مرنے کے بعد ہم اٹھائے جائیں گے، پھر ایک اور حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ اللہ عزوجل کے سامنے کھڑے ہو نگے۔ اس وقت جناب باری ان سے فرمائے گا کہو اب تو اس کا سچا ہونا تم پر ثابت ہوگیا ؟ اب تو مان گئے کہ یہ غلط اور باطل نہیں ؟ اس وقت سرنگوں ہو کر کہیں گے کہ ہاں اللہ کی قسم یہ بالکل سچ اور سراسر حق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب اپنے جھٹلانے اور نہ ماننے اور کفر و انکار کا خمیازہ بھگتو اور عذابوں کا مزہ چکھو۔ بتاؤ جادو ہے یا تم اندھے ہو۔
God exalted be He says Nay — here used in order to reject the desire to believe implied by the optative exclamation — that which they used to conceal to hide before by their saying By God our Lord we were never idolaters! Q. 623 has now become evident to them as their limbs have borne witness against them and so they now wish for that mentioned in the previous verse; and even if hypothetically they were returned to the world they would return to that which they are forbidden of idolatry; they are truly liars when they promise that they would believe if they were to be returned.