And his people argued with him; he said, “What! You dispute with me concerning Allah? So He has guided me; and I do not have any fear of whatever you ascribe as partners, except what my Lord wills (to happen); my Lord’s knowledge encompasses all things; so will you not accept advice?” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
وجادله قومه في توحيد الله تعالى قال: أتجادلونني في توحيدي لله بالعبادة، وقد وفقني إلى معرفة وحدانيته، فإن كنتم تخوفونني بآلهتكم أن توقع بي ضررًا فإنني لا أرهبها فلن تضرني، إلا أن يشاء ربي شيئًا. وسع ربي كل شيء علمًا. أفلا تتذكرون فتعلموا أنه وحده المعبود المستحق للعبودية؟
مشرکین کا توحید سے فرار ابراہیم ؑ کی سچی توحید کے دلائل سن کر پھر بھی مشرکین آپ سے بحث جاری رکھتے ہیں تو آپ ان سے فرماتے ہیں تعجب ہے کہ تم مجھ سے اللہ جل جلالہ کے بارے میں جھگڑا کر رہے ہو ؟ حالانکہ وہ یکتا اور لا شریک ہے اس نے مجھے راہ دکھا دی ہے اور دلیل عطا فرمائی ہے میں یقینا جانتا ہوں کہ تمہارے یہ سب معبود محض بےبس اور بےطاقت ہیں، میں نہ تو تمہاری فضول اور باطل باتوں میں آؤں گا نہ تمہاری دھمکیاں سچی جانوں گا، جاؤ تم سے اور تمہارے باطل معبودوں سے جو ہو سکے کرلو۔ ہرگز ہرگز کمی نہ کرو بلکہ جلدی کر گزرو اگر تمہارے اور ان کے قبضے میں میرا کوئی نقصان ہے تو جاؤ پہنچا دو۔ میرے رب کی منشا بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا ضرر نفع سب اسی کی طرف سے ہے تمام جیزیں اسی کے علم میں ہیں اس پر چھوٹی سے جھوتی چیز بھی پوشیدہ نہیں۔ افسوس اتنی دلیلیں سن کر بھی تمہارے دل نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ حضور ہود ؑ نے بھی اپنی قوم کے سامنے یہی دلیل پیش کی تھی۔ قرآن میں موجود ہے کہ ان کی قوم نے ان سے کہا اے ہود تم کوئی دلیل تو لائے نہیں ہو اور صرف تمہارے قول سے ہم اپنے معبودوں سے دست بردار نہیں ہوسکتے نہ ہم تجھ پر ایمان لائیں گے۔ ہمارا اپنا خیال تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں نے تجھے کچھ کردیا ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ میں اللہ کو گواہ کرتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ تم جن کو بھی اللہ کا شریک ٹھہرا رہے ہو، میں سب سے بیزار ہوں۔ جاؤ تم سب مل کر جو کچھ مکر میرے ساتھ کرنا چاہتے ہو وہ کرلو اور مجھے مہلت بھی نہ دو ، میں نے تو اس رب پر توکل کرلیا ہے جو تمہارا میرا سب کا پالنہار ہے۔ تمام جانداروں کی پیشانیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ سمجھو اور سوچو تو سہی کہ میں تمہارے ان باطل معبودوں سے کیوں ڈراؤں گا ؟ جبکہ تم اس اکیلے اللہ وحدہ لا شریک سے نہیں ڈرتے اور کھلم کھلا اس کی ذات کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرا رہے ہو۔ تم ہی بتلاؤ کہ ہم تم میں سے امن کا زیادہ حقدار کون ہے ؟ دلیل میں اعلی کون ہے ؟ یہ آیت مثل آیت (اَمْ لَهُمْ شُرَكَاۗءُ ڔ فَلْيَاْتُوْا بِشُرَكَاۗىِٕهِمْ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ) 68۔ القلم :41) اور آیت (اِنْ هِىَ اِلَّآ اَسْمَاۗءٌ سَمَّيْتُمُوْهَآ اَنْتُمْ وَاٰبَاۗؤُكُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ) 53۔ النجم :23) کے ہے مطلب یہ ہے کہ اس کا بندہ جو خیرو شر، کا نفع و ضر کا مالک ہے امن والا ہوگا یا اس کا بندہ جو محض بےبس اور بےقدرت ہے قیامت کے دن کے عذابوں سے امن میں رہے گا پھر جناب باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور خلوص کے ساتھ دینداری کریں رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں امن وامان اور راہ راست والے یہی لوگ ہیں جب یہ آیت اتری تو صحابہ ظلم کا لفط سن کر چونک اٹھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ہم میں سے ایسا کون ہے جس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو ؟ اس پر آیت (اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ) 31۔ لقمان :13) نازل ہوئی یعنی یہاں مراد ظلم سے شرک ہے (بخاری شریف) اور روایت میں ہے کہ حضور نے ان کے اس سوال پر فرمایا کیا تم نے اللہ کے نیک بندے کا یہ قول نہیں سنا کہ اے میرے پیارے بچے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔ پس مراد یہاں ظلم سے شرک ہے اور روایت میں ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم جو سمجھ رہے ہو وہ مقصد نہیں اور حدیث میں آپ کا خود لظلم کی تفسیر بشرک سے کرنا مروی ہے۔ بہت سے صحابیوں سے بہت سی سندوں کے ساتھ بہت سی کتابوں میں یہ حدیث مروی ہے۔ ایک روایت میں حضور کا فرمان ہے کہ مجھ سے کہا گیا کہ تو ان ہی لوگوں میں سے ہے۔ مسند احمد میں زاذان اور جریر ؓ سے مروی ہے کہ اے باپ کیا آپ آزر بت کو معبود مانتے ہیں ؟ لیکن یہ دور کی بات ہے خلاف لغت ہے کیونکہ حرف استفہام کے بعد والا اپنے سے پہلے والے میں عامل نہیں ہوتا اس لئے کہ اس کے لئے ابتداء کلام کا حق ہے، عربی کا یہ تو مشہور قاعدہ ہے، الغرض حضرت ابراہیم خلیل اللہ ؑ اپنے باپ کو وعظ سنا رہے ہیں اور انہیں بت پرستی سے روک رہے ہیں لیکن وہ باز نہ آئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یہ تو نہایت بری بات ہے کہ تم ایک بت کے سامنے الحاج اور عاجزی کرو۔ جو اللہ تعالیٰ کا حق ہے یقینا اس مسلک کے لوگ سب کے سب بہکے ہوئے اور راہ بھٹکے ہوئے ہیں اور آیت میں ہے کہ صدیق نبی ابراہیم خلیل نے اپنے والد سے فرمایا ابا آپ ان کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں نہ کچھ فائدہ پہنچائیں، ابا میں آپ کو وہ کھری بات سناتا ہوں جو اب تک آپ کے علم میں نہیں آئی تھی، آپ میری بات مان لیجئے میں آپ کو صحیح راہ کی رہنمائی کروں گا، ابا شیطان کی عبادت سے ہٹ جائیے، وہ تو رحمان کا نافرمان ہے، ابا مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو آپ پر اللہ کا کوئی عذاب آجائے اور آپ شیطان کے رفیق کار بن جائیں۔ باپ نے جواب دیا کہ ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے ناراض ہے ؟ سن اگر تو اس سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا، پس اب تو مجھ سے الگ ہوجا۔ آپ نے فرمایا اچھا میرا سلام لو میں تو اب بھی اپنے پروردگار سے تمہاری معافی کی درخواست کروں گا وہ مجھ پر بہت مہربان ہے، میں تم سب کو اور تمہارے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا ہیں چھوڑتا ہوں اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوتا ہوں ناممکن ہے کہ میں اس کی عبادت بھی کروں اور پھر بےنصیب اور خالی ہاتھ رہوں چناچہ حسب وعدہ خلیل اللہ اپنے والد کی زندگی تک استغفار کرتے رہے لیکن جبکہ مرتے ہوئے بھی وہ شرک سے باز نہ آئے تو آپ نے استغفار بند کردیا اور بیزار ہوگئے، چناچہ قرآن کریم میں ہے حضرت ابراہیم کا اپنے باپ کے لئے استغفار کرنا ایک وعدے کی بنا پر تھا جب آپ پر یہ کھل گیا کہ وہ دشمن اللہ ہے تو آپ اس سے بیزار اور بری ہوگئے، ابراہیم بڑے ہی اللہ سے ڈرنے والے نرم دل حلیم الطبع تھے، حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملاقات کریں گے آزر آپ کو دیکھ کر کہے گا بیٹا آج میں تیری کسی بات کی مخالفت نہ کروں گا، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے کہ اے اللہ تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ قیامت کے دن تو مجھے رسوانہ کرے گا اس سے زیادہ سوائی کیا ہوگی کہ میرا باپ رحمت سے دور کردیا جائے، آپ سے فرمایا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے کی طرف دیکھو، دیکھیں گے کہ ایک بجو کیچڑ میں لتھڑا کھڑا ہے اس کے پاؤں پکڑے جائیں گے اور آگ میں ڈال دیا جائے گا، مخلوق کو دیکھ کر خالق کی وحدانیت سمجھ میں آجائے اس لئے ہم نے ابراہیم کو آسمان و زمین کی مخلوق دکھا دی جیسے اور آیت میں ہے آیت (اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ۙ وَّاَنْ عَسٰٓي اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ) 7۔ الاعراف :185) اور جگہ ہے آیت (اَفَلَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۭاِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ) 34۔ سبأ :9) یعنی لوگوں کو آسمان و زمین کی مخلوق پر عبرت کی نظریں ڈالنی چاہئیں انہیں اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھنا چاہیے اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں اگر چاہیں آسمان کا ٹکڑا ان پر گرا دیں رغبت و رجو والے بندوں کیلئے اس میں نشانیاں ہیں۔ مجاہد وغیرہ سے منقول ہے کہ آسمان حضرت ابراہیم کے سامنے کھول دیئے گئے عرش تک آپ کی نظریں پہنچیں۔ حجاب اٹھا دیئے گئے اور آپ نے سب کچھ دیکھا، بندوں کو گناہوں میں دیکھ کر ان کے لئے بد دعا کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تجھ سے زیادہ میں ان پر رحیم ہوں بہت ممکن ہے کہ یہ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے ہٹ جائیں۔ پس یہ دکھلانا موقوف کردیا گیا ممکن ہے یہ کشف کے طور پر ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد معلوم کرانا اور حقائق سے متعارف کرا دینا ہو۔ چناچہ مسند احمد اور ترمذی کی ایک حدیث میں حضور کے خواب کا ذکر ہے کہ میرے پاس میرا رب بہت اچھی صورت میں آیا اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ اونچی جماعت کے فرشتے اس وقت کس بارے میں گفتگو کر رہے ہیں ؟ میں نے اپنی لا علمی ظاہر کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میری دونوں بازوؤں کے درمیان رکھ دی یہاں تک کہ اس کی پوریوں رب کی بات صادق آگئی ہے ان کے پاس چاہے تم تمام نشانیاں لے آؤ پھر بھی انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا یہاں تک کہ وہ اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیں۔ پس رب کی حکمت اور اس کے علم میں کوئی شبہ نہیں۔
But his people disputed with him they argued with him about his religion and threatened him that the idols would strike him with evil if he abandoned them. He said ‘Do you dispute with me read a-tuhājjūnnī or a-tuhājūnī where one of the two letters nūn is omitted the nūn which grammarians refer to as nūn al-raf‘ ‘the nūn of modal independence’ and which the Qur’ānic reciters refer to as nūn al-wiqāya ‘the nūn of preservation’; do you argue with me concerning the Oneness of God when He exalted be He has guided me to it? I have no fear of what you associate with Him in the way of idols that they might strike me with some evil since they have no power to do anything unless my Lord wills something harmful to befall me and it does. My Lord encompasses all things through His knowledge; will you not remember this and believe?