And those who accepted faith and did good deeds – We shall indeed include them among the virtuous. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
والذين صدَّقوا الله ورسوله وعملوا الصالحات من الأعمال، لندخلنهم الجنة في جملة عباد الله الصالحين.
انسان کا وجود پہلے اپنی توحید پر مضبوطی کے ساتھ کاربند رہنے کا حکم فرما کر اب ماں باپ کے سلوک واحسان کا حکم دیتا ہے۔ کیونکہ انہی سے انسان کا وجود ہوتا ہے۔ باپ خرچ کرتا ہے اور پرورش کرتا ہے ماں محبت رکھتی ہے اور پالتی ہے۔ دوسری آیت میں فرمان ہے آیت (وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا 23) 17۔ الإسراء :23) اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماچکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کی پوری اطاعت کرو۔ ان دونوں یا ان میں سے ایک کا بڑھاپے کا زمانہ آجائے تو انہیں اف بھی نہ کہنا ڈانٹ ڈپٹ تو کہاں کی ؟ بلکہ ان کے ساتھ ادب سے کلام کرنا اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھکے رہنا اور اللہ سے ان کے لیے دعا کرنا کہا اے اللہ ان پر ایسا رحم کر جیسے یہ بچپن میں مجھ پر کیا کرتے تھے۔ لیکن ہاں یہ خیال رہے کہ اگر یہ شرک کی طرف بلائیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ سمجھ لو کہ تمہیں ایک دن میرے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ اس وقت میں اپنی پرستش کا اور میرے فرمان کے تحت ماں باپ کی اطاعت کرنے کا بدلہ دونگا۔ اور نیک لوگوں کے ساتھ حشر کرونگا اگر تم نے اپنے ماں باپ کی وہ باتیں نہیں مانیں جو میرے احکام کے خلاف نہیں تو وہ خواہ کیسے ہی ہوں میں تمہیں ان سے الگ کر لونگا۔ کیونکہ قیامت کے دن انسان اس کے ساتھ ہوگا جسے وہ دنیا میں چاہتا تھا۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ایمان والوں اور نیک عمل والوں کو میں اپنے صالح بندوں میں ملادونگا۔ حضرت سعد فرماتے ہیں میرے بارے میں چار آیتیں اتریں جن میں سے ایک آیت یہ بھی ہے۔ یہ اس لئے اتری کہ میری ماں نے مجھ سے کہا کہ اے سعد ! کیا اللہ کا حکم میرے ساتھ نیکی کرنے کا نہیں ؟ اگر تو نے آنحضرت ﷺ کی نبوت سے انکار نہ کیا تو واللہ میں کھانا پینا چھوڑ دونگی چناچہ اس نے یہی کیا یہاں تک کہ لوگ زبردستی اس کا منہ کھول کر غذا حلق میں پہنچا دیتے تھے پس یہ آیت اتری۔ (ترمذی وغیرہ)
And those who believe and perform righteous deeds assuredly We shall admit them among the righteous among the prophets and the saints by gathering in the company of one another at the Resurrection.