Moosa said to his people, “Seek the help of Allah and patiently endure; indeed the Owner of the earth is Allah – He appoints as its successor whomever He wills; and the final triumph is for the pious.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
قال موسى لقومه -من بني إسرائيل-: استعينوا بالله على فرعون وقومه، واصبروا على ما نالكم من فرعون من المكاره في أنفسكم وأبنائكم. إن الأرض كلها لله يورثها من يشاء من عباده، والعاقبة المحمودة لمن اتقى الله ففعل أوامره واجتنب نواهيه.
آخری حربہ بغاوت کا الزام فرعون اور فرعونیت نے حضرت موسیٰ اور مسلمانوں کے خلاف جو منصوبے سوچے ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان مسلمانوں کے خلاف ابھارتے رہے کہنے لگے یہ تو آپ کی رعایا کو بہکاتے ہیں بغاوت پھیلا دیں گے ملک میں بد امنی پیدا کریں گے ان کا ضرور اور جلد کوئی انتظام کرنا چاہئے، اللہ کی شان دیکھئے کیا مصلح بنے ہوئے ہیں کہ اللہ کے رسول اور مومنوں کے فساد سے دنیا کو بچانا چاہتے ہیں حالانکہ مفسد اور بد نفس خود ہیں۔ آیت (ویذرک) میں بعض تو کہتے ہیں واؤ حالیہ ہے یعنی در آنحالیکہ موسیٰ اور قوم موسیٰ نے تیری پرستش چھوڑ رکھی ہے پھر بھی تو انہیں زندہ رہنے دیتا ہے ؟ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں ہے آیت (وقد ترکوک ان یعبدوا الھتک) اور قول ہے کہ واؤ عاطفہ ہے یعنی تو نے انہیں چھوڑ رکھا ہے۔ جس فساد کو یہ برپا کر رہے ہیں اور تیرے معبودوں کے چھوڑنے پر اکسا رہے ہیں۔ بعض کی قرأت الاھتک ہے یعنی تیری عبادت سے، بعض کا بیان ہے کہ فرعون بھی کسی کو پوجا کرتا تھا۔ ایک قول ہے کہ اسے وہ پوشیدہ راز میں رکھتا تھا، ایک روایت میں ہے کہ اس کا بت اس کی گردن میں ہی لٹکتا رہتا تھا جسے یہ سجدہ کرتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بہترین گائے پر فرعون کی نگاہ پڑی جاتی تو لوگوں سے کہہ دیتا کہ اس کی پرستش کرو۔ اسی لئے سامری نے بھی بنی اسرائیل کے لئے بچھڑا نکالا۔ الغرض اپنے سرداروں کی بات سن کر فرعون جواب دیتا ہے کہ اب سے ان کے لئے ہم احکام جاری کریں گے کہ ان کے ہاں جو اولاد ہو دیکھ لی جائے۔ اگر لڑکا ہو تو قتل کردیا جائے لڑکی ہو تو زندہ چھوڑ دی جائے۔ پہلے سرکش فرعون ان مساکین کے ساتھ یہی کرچکا تھا جبکہ اسے یہ منظور تھا کہ حضرت موسیٰ پیدا ہی نہ ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ غالب آیا اور حضرت موسیٰ باوجود اس کے حکم کے زندہ وسالم بجے رہے اب دوبارہ اس نے یہی قانون جاری کردیا تاکہ بنی اسرائیل کی جمعیت ٹوٹ جائے، یہ کمزور پڑجائیں اور بالاخر ان کا نام مٹ جائے لیکن قدرت نے اس کا بھی خلاف کر دکھایا، اسی کو اور اس کی قوم کو غارت کردیا اور بنی اسرائیل کو اوج و ترقی پر پہنچا دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اس تکبر کے مقابلے میں تحمل اور اس کے ظلم کے مقابلے میں صبر سے کام لیا اپنی قوم کو سمجھایا اور بتایا کہ اللہ فرما چکا ہے کہ لحاظ سے تم ہی اچھے رہو گے تم اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو۔ قوم والوں نے کہا اے اللہ کے نبی آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم اس طرح ستائے جاتے رہے، اسی ذلت و اہانت میں مبتلا رہے اور اب پھر یہی نوبت آئی ہے۔ آپ نے مزید تسلی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں۔ یقین مانو کہ تمہارا بدخواہ ہلاک ہوگا اور تم کو اللہ تعالیٰ اوج پر پہنچائے گا۔ اس وقت وہ دیکھے گا کہ کون کتنا شکر بجا لاتا ہے ؟ تکلیف کا ہٹ جانا راحت کامل جانا انسان کو نہال نہال کردیتا ہے یہ پورے شکریئے کا وقت ہوتا ہے۔
Moses said to his people ‘Seek help in God and be patient their persecution. Surely the earth is God’s and He bequeaths it He gives it to whom He will from among His servants. The praiseworthy sequel belongs to those who are wary of God’.