They both submitted, “Our Lord! We have wronged ourselves; so if You do not forgive us and have mercy on us, then surely, we are of the losers.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
قال آدم وحواء: ربنا ظلمنا أنفسنا بالأكل من الشجرة، وإن لم تغفر لنا وترحمنا لنكونن ممن أضاعوا حظَّهم في دنياهم وأخراهم. (وهذه الكلمات هي التي تلقاها آدم من ربه، فدعا بها فتاب الله عليه).
لغزش کے بعد کیا ہوا ؟ ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں " حضرت آدم ؑ کا قد مثل درخت کھجور کے بہت لمبا تھا اور سر پر بہت لمبے لمبے بال تھے، درخت کھانے سے پہلے انہیں اپنی شرمگاہ کا علم بھی نہ تھا نظر ہی نہ پڑی تھی۔ لیکن اس خطا کے ہوتے ہی وہ ظاہر ہوگئی، بھاگنے لگے تو بال ایک درخت میں الجھ گئے، کہنے لگے اے درخت مجھے چھوڑ دے درخت سے جواب ملا کہ ناممکن ہے، اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ اے آدم مجھ سے بھاگ رہا ہے ؟ کہنے لگے یا اللہ شرمندگی ہے، شرمسار ہوں، گو یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوف ہونا ہی ہے، ابن عباس فرماتے ہیں، درخت کا پھل کھالیا اور چھپانے کی چیز ظاہر ہوگئی، جنت کے پتوں سے چھپانے لگے، ایک کو ایک پر چپکا نے لگے، حضرت آدم مارے غیرت کے ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن ایک درخت کے ساتھ الجھ کر رہ گئے اللہ تعالیٰ نے ندا دی کہ آدم مجھ سے بھاگتا ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں یا اللہ مگر شرماتا ہوں۔ جناب باری نے فرمایا آدم جو کچھ میں نے تجھے دے رکھا تھا کیا وہ تجھے کافی نہ تھا ؟ آپ نے جواب دیا بیشک کافی تھا لیکن یا اللہ مجھے یہ علم نہ تھا کہ کوئی تیرا نام لے کر تیری قسم کھا کر جھوٹ کہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب تو میری نافرمانی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور تکلیفیں اٹھانا ہوں گی۔ چناچہ جنت سے دونوں کو اتار دیا گیا، اب اس کشادگی کے بعد کی یہ تنگی ان پر بہت گراں گذری کھانے پینے کو ترس گئے، پھر انہیں لوہے کی صنعت سکھائی گئی، کھیتی کا کام بتایا گیا، آپ نے زمین صاف کی دانے بوئے، وہ آگے بڑھے، بالیں نکلیں، دانے پکے، پھر توڑے گئے، پھر پیسے آگئے، آٹا گندھا، پھر روٹی تیار ہوئی، پھر کھائی جب جا کر بھوک کی تکلیف سے نجات پائی۔ تین کے پتوں سے اپنا آگا پیچھا چھپاتے پھرتے تھے جو مثل کپڑے کے تھے، وہ نورانی پردے جن سے ایک دوسرے سے یہ اعضا چھپے ہوئے تھے، نافرمانی ہوتے ہی ہٹ گئے اور وہ نظر آنے لگے، حضرت آدم اسی وقت اللہ کی طرف رغبت کرنے لگے توبہ استغفار کی طرف جھک پڑے، بخلاف ابلیس کے کہ اس نے سزا کا نام سنتے ہی اپنے ابلیسی ہتھیار یعنی ہمیشہ کی زندگی وغیرہ طلب کی۔ اللہ نے دونوں کی دعا سنی اور دونوں کی طلب کردہ چیزیں عنایت فرمائی۔ مروی ہے کہ حضرت آدم نے جب درخت کھالیا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی سزا یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی تکلیف میں رہیں گی بچہ ہونے کے وقت بھی تکلیف اٹھائیں گی، یہ سنتے ہی حضرت جواء نے نوحہ شروع کیا، حکم ہوا کہ یہی تجھ پر اور تیری اولاد پر لکھ دیا گیا۔ حضرت آدم نے جناب باری میں عرض کی اور اللہ نے انہیں دعا سکھائی، انہوں نے دعا کی جو قبول ہوئی۔ قصور معاف فرما دیا گیا فالحمد اللہ !
They said ‘Our Lord we have wronged ourselves by our act of disobedience and if You do not forgive us and have mercy on us we shall surely be among the lost’.