Or like a rainstorm from the sky, in which are darkness, thunder and lightning; they thrust their fingers in their ears due to the thunderclaps, fearing death; and Allah has the disbelievers encompassed. — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
أو تُشْبه حالُ فريق آخر من المنافقين يظهر لهم الحق تارة، ويشكون فيه تارة أخرى، حالَ جماعة يمشون في العراء، فينصب عليهم مطر شديد، تصاحبه ظلمات بعضها فوق بعض، مع قصف الرعد، ولمعان البرق، والصواعق المحرقة، التي تجعلهم من شدة الهول يضعون أصابعهم في آذانهم؛ خوفًا من الهلاك. والله تعالى محيط بالكافرين لا يفوتونه ولا يعجزونه.
منافقین کی ایک اور پہچان یہ دوسری مثال ہے جو دوسری قسم کے منافقوں کے لئے بیان کی گئی ہے۔ یہ وہ قوم ہے جن پر کبھی حق ظاہر ہوجاتا ہے اور کبھی پھر شک میں پڑجاتے ہیں تو شک کے وقت ان کی مثال برسات کی سی ہے۔ صیب کے معنی مینہ اور بارش کے ہیں۔ بعض نے بادل کے معنی بھی بیان کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور معنی بارش کے ہی ہیں جو اندھیرے میں برسے۔ ظلمات سے مراد شک، کفر و نفاق ہے اور رعد سے مراد یعنی گرج ہے جو اپنی خوفناک آواز سے دل دہلا دیتی ہے۔ یہی حال منافق کا ہے کہ اسے ہر وقت ڈر خوف گھبراہٹ اور پریشانی ہی رہتی ہے۔ جیسے کہ اور جگہ فرمایا آیت (يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ) 63۔ المنافقون :4) یعنی ہر آواز کو اپنے اوپر ہی سمجھتے ہیں ایک اور جگہ ارشاد ہے کہ یہ منافقین اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمام میں سے ہیں دراصل وہ ڈرپوک لوگ ہیں اگر وہ کوئی جائے پناہ یا راستہ پالیں تو یقینا اس میں سمٹ کر گھس جائیں۔ بجلی کی مثال سے مراد وہ نور ایمان ہے جو ان کے دلوں میں کسی وقت چمک اٹھتا ہے، اس وقت وہ اپنی انگلیاں موت کے ڈر سے کانوں میں ڈال لیتے ہیں لیکن ایسا کرنا انہیں کوئی نفع نہ دے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی ارادے کے ماتحت ہیں، یہ بچ نہیں سکتے۔ جیسا کہ اور جگہ فرمایا آیت (هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْجُــنُوْدِ 17ۙ فِرْعَوْنَ وَثَمُــوْدَ 18ۭ) 85۔ البروج :17) یعنی کیا تمہیں لشکر کی۔ فرعون اور ثمود کی روایتیں نہیں پہنچیں بیشک پہنچی تو ہیں لیکن یہ کافر پھر بھی تکذیب ہی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ان کے پیچھے سے گھیر رہا ہے۔ بجلی کا آنکھوں کو اچک لینا، اس کی قوت اور سختی کا اظہار ہے اور منافقین کی بینائی کی کمزوری اور ضعف ایمان ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ قرآن کی مضبوط آیتیں ان منافقوں کی قلعی کھول دیں گی اور ان کے چھپے ہوئے عیب ظاہر کردیں گی اور اپنی نورانیت سے انہیں مبہوت کردیں گی جب ان پر اندھیرا ہوجاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں یعنی جب ایمان ان پر ظاہر ہوجاتا ہے تو ذرا روشن دل ہو کر پیروی بھی کرنے لگتے ہیں لیکن پھر جہاں شک و شبہ آیا، دل میں کدورت اور ظلمت بھر گئی اور بھونچکے ہو کر کھڑے رہ گئے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اسلام کو ذرا عروج ملا تو ان کے دل میں قدرے اطمینان پیدا ہوا لیکن جہاں اس کے خلاف نظر آیا یہ الٹے پیروں کفر کی طرف لوٹنے لگے۔ جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے آیت (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰي حَرْفٍ) 22۔ الحج :11) یعنی بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کنارے پر ٹھہر کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اگر بھلائی ملے تو مطمئن ہوجائیں اور اگر برائی پہنچے تو اسی وقت پھرگئے۔ حضرت ابن عباسیہ بھی فرماتے ہیں کہ ان کا روشنی میں چلنا حق کو جان کر کلمہ اسلام پڑھنا ہے اور اندھیرے میں ٹھہر جانا کفر کی طرف لوٹ جانا ہے۔ دیگر بہت سے مفسرین کا بھی یہی قول ہے اور زیادہ صحیح اور ظاہر بھی یہی قول ہے واللہ اعلم۔ روز قیامت بھی ان کا یہی حال رہے گا کہ جب لوگوں کو ان کے ایمان کے اندازے کے مطابق نور ملے گا بعض کو کئی کئی میلوں تک کا، بعض کو اس سے بھی زیادہ، کسی کو اس سے کم، یہاں تک کہ کسی کو اتنا نور ملے گا کہ کبھی روشن ہو اور کبھی اندھیرا کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ذرا سی دور چل سکیں گے پھر ٹھہر جائیں گے پھر ذرا سی دور کا نور ملے گا پھر بجھ جائے گا اور بعض وہ بےنصیب بھی ہوں گے کہ ان کا نور بالکل بجھ جائے گا یہ پورے منافق ہوں گے جن کے بارے میں فرمان الٰہی ہے آیت (يَوْمَ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ) 57۔ الحدید :13) یعنی جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں کو پکاریں گے اور کہیں گے ذرا رکو ! ہمیں بھی آ لینے دو تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے فائدہ اٹھائیں تو کہا جائے گا کہ اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور نور ڈھونڈ لاؤ۔ مومنوں کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ يَسْعٰى نُوْرُهُمْ بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ بُشْرٰىكُمُ الْيَوْمَ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا) 57۔ الحدید :12) یعنی اس دن تو دیکھے گا کہ مومن مرد اور عورتوں کے آگے آگے اور دائیں جانب نور ہوگا اور کہا جائے گا تمہیں آج باغات کی خوشخبری دی جاتی ہے جن کے نیچے نہیں بہہ رہی ہیں۔ اور فرمایا جس دن نہ رسوا کرے گا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو ان کے ساتھ ایمان لائے، ان کا نور ان کے آگے اور دائیں ہوگا۔ وہ کہہ رہے ہوں گے اے ہمارے رب ! ہمارے لئے ہمارا نور پورا کر اور ہمیں بخش یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔ ان آیتوں کے بعد اب اس مضمون کی حدیثیں بھی سنئے۔ احادیث میں تذکرئہ نور٭٭ نبی ﷺ فرماتے ہیں " بعض مومنوں کو مدینہ سے لے کر عدن تک نور ملے گا۔ بعض کو اس سے کم یہاں تک کہ بعض کو اتنا کم کہ صرف پاؤں رکھنے کی جگہ ہی روشن ہوگی " (ابن جریر) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں " ایمان والوں کو ان کے اعمال کے مطابق نور ملے گا بعض کو کھجور کے درخت جتنا، کسی کو قد آدم جتنا، کسی کو صرف اتنا ہی کہ اس کا انگوٹھا ہی روشن ہو، کبھی بجھ جاتا ہو، کبھی روشن ہوجاتا ہو " (ابن ابی حاتم) حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں " انہیں نور ملے گا ان کے اعمال کے مطابق جس کی روشنی میں وہ پل صراط سے گزریں گے۔ بعض لوگوں کا نور پہاڑ جتنا ہوگا، بعض کا کھجور جتنا اور سب سے کم نور والا وہ ہوگا جس کا نور اس کے انگوٹھے پر ہوگا کبھی چمک اٹھے گا اور کبھی بجھ جائے گا " (ابن ابی حاتم) حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں " کہ تمام اہل توحید کو قیامت کے دن نور ملے گا۔ جب منافقوں کا نور بجھ جائے گا تو موحد ڈر کر کہیں گے آیت (رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا) 66۔ التحریم :8) یا رب ہمارے نور کو پورا کر " (ابن ابی حاتم) ضحاک بن مزاحم کا بھی یہی قول ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ قیامت والے دن لوگ کئی قسم کے ہوں گے۔ خالص مومن وہ جن کا بیان اگلی چار آیتوں میں ہوا، خالص کفار جن کا ذکر اس کے بعد کی دو آیتوں میں ہے اور منافق جن کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو خالص منافق جن کی مثال آگ کی روشنی سے دی گئی۔ دوسرے وہ منافق جو تردد میں ہیں کبھی تو ایمان چمک اٹھتا ہے کبھی بجھ جاتا ہے، ان ہی کی مثال بارش سے دی گئی ہے یہ پہلی قسم کے منافقوں سے کچھ کم ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سورة نور میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومن کی اور اس کے دل کے نور کی مثال اس منور چراغ سے دی ہے جو روشن فانوس میں ہو اور خود فانوس بھی چمکتے ہوئے تارے کی طرح ہو۔ چناچہ ایمان دار کا ایک تو خود دل روشن، دوسرے خالص شریعت کی اسے امداد، بس روشنی پر روشنی، نور پر نور ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دوسری جگہ کافروں کی مثال بھی بیان کی جو اپنی نادانی کی وجہ سے اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں اور حقیقت میں وہ کچھ نہیں ہوتے۔ فرمایا کافروں کے اعمال کی مثال ریت کے چمکیلے ٹیلوں کی طرح ہے جنہیں پیاسا پانی سمجھتا ہے یہاں تک کہ پاس آ کر دیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا۔ ایک اور جگہ پر ان جاہل کافروں کی مثال بیان کی جو جہل بسیط میں گرفتار ہیں۔ فرمایا مانند سخت اور اندھیروں کے جو گہرے سمندر میں ہوں جو موجوں پر موجیں مار رہا ہو پھر ابر سے ڈھکا ہوا ہو اور اندھیروں پر اندھیرے چھائے ہوئے ہوں، ہاتھ نکالے تو دیکھ بھی نہیں سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کے لئے اللہ کی طرف بلانے والے دوسرے ان کی تقلید کرنے والے۔ جیسے سورة حج کے شروع میں ہے آیت (ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم) الخ بعض وہ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ ایک اور جگہ فرمایا آیت (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّيَتَّبِـعُ كُلَّ شَيْطٰنٍ مَّرِيْدٍ) 22۔ الحج :3) بعض لوگ علم ہدایت اور روشن کتاب کے بغیر اللہ کی بارے میں لڑتے جھگڑتے ہیں۔ سورة واقعہ کے شروع اور آخر میں اور سورة انسان میں مومنوں کی بھی دو قسمیں بیان کی ہیں۔ سابقین اور اصحاب یمین یعنی مقربین بارگاہ ربانی اور پرہیزگار و نیک کار لوگ۔ پس ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ مومنوں کی دو جماعتیں ہیں مقرب اور ابرار۔ اور کافروں کی بھی دو قسمیں ہیں کفر کی طرف لانے والے اور ان کی تقلید کرنے والے۔ منافقوں کی بھی دو قسمیں ہیں خالص اور پکے منافق اور وہ منافق جن میں نفاق کی ایک آدھ شاخ ہے۔ صحیحین میں حدیث ہے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ " تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں یہ تینوں ہوں وہ پختہ منافق ہے اور جس میں ایک ہو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک اسے نہ چھوڑے۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا، اس سے ثابت ہوا کہ انسان میں کبھی نفاق کا کچھ حصہ ہوتا ہے خواہ وہ نفاق عملی ہو خواہ اعتقادی جیسے کہ آیت و حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ سلف کی ایک جماعت اور علماء کرام کے ایک گروہ کا یہی مذہب ہے اس کا بیان پہلے بھی گزر چکا ہے اور آئندہ بھی آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ مسند احمد میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " دل چار قسم کے ہیں ایک تو صاف دل جو روشن چراغ کی طرح چمک رہا ہو دوسرے وہ دل جو غلاف آلود ہیں، تیسرے وہ دل جو الٹے ہیں، چوتھے وہ دل جو مخلوط ہیں پہلا دل مومن کا ہے جو پوری طرح نورانی ہے، دوسرا کافر کا دل ہے جس پر پردے پڑے ہوئے ہیں، تیسرا دل خالص منافقوں کا ہے جو جانتا ہے اور انکار کرتا ہے، چوتھا دل اس منافق کا ہے جس میں ایمان و نفاق دونوں جمع ہیں۔ ایمان کی مثال اس سبزے کی طرح ہے جو پاکیزہ پانی سے بڑھ رہا ہو اور نفاق کی مثال اس پھوڑے کی طرح ہے جس میں پیپ اور خون بڑھتا ہی جاتا ہو اب جو مادہ بڑھ جائے وہ سرے پر غالب آجاتا ہے۔ اس حدیث کی اسناد بہت ہی عمدہ ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اگر اللہ چاہے تو ان کے کان اور آنکھیں برباد کر دے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے حق کو جان کر اسے چھوڑ دیا تو اللہ ہر چیز پر قادر ہے یعنی اگر چاہے تو عذاب و سزا دے چاہے تو معاف کر دے۔ یہاں قدرت کا بیان اس لئے کیا کہ پہلے منافقوں کو اپنے عذاب، اپنی جبروت سے ڈرایا اور کہہ دیا کہ وہ انہیں گھیر لینے پر قادر ہے اور ان کے کانوں کو بہرا کرنے اور آنکھوں کو اندھا کرنے پر قادر ہے۔ قدیر کے معنی قادر کے ہیں جیسے علیم کے معنی عالم کے ہیں۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ دو مثالیں ایک ہی قسم کے منافقوں کی ہیں او معنی میں و کے ہے جیسے فرمایا آیت (وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا) 76۔ الانسان :24) یا لفظ او اختیار کے لئے ہے یعنی خواہ یہ مثال بیان کرو، خواہ وہ مثال بیان کرو اختیار ہے۔ قرطبی فرماتے ہیں اور یہاں پر تساوی یعنی برابری کے لئے ہے جیسے عربی زبان کا محاورہ ہے جالس الحسن او ابن سیرین زمخشری بھی یہی توجیہ کرتے ہیں تو مطلب یہ ہوگا کہ ان دونوں مثالوں میں سے جو مثال چاہو بیان کرو دونوں ان کے مطابق ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ باعتبار منافقوں کی اقسام کے ہے، ان کے احوال وصفات طرح طرح کے ہیں۔ جیسے کہ سورة برات میں ومنھم ومنھم ومنھم کر کے ان کی بہت سی قسمیں بہت سے افعال اور بہت سے اقوال بیان کئے ہیں۔ تو یہ دونوں مثالیں دو قسم کے منافقوں کی ہیں جو ان کے احوال اور صفات سے بالکل مشابہ ہیں۔ واللہ اعلم۔ جیسے کہ سورة نور میں دو قسم کے کفار کی مثالیں بیان کیں۔ ایک کفر کی طرف بلانے والے دوسرے مقلد۔ فرمایا آیت (وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۢ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَاۗءً) 24۔ النور :39) پھر فرمایا آیت (اوکظلمات) پس پہلی مثال یعنی ریت کے تودے کی کفر کی طرف بلانے والوں کی ہے جو جہل مرکب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دوسری مثال مقلدین کی ہے جو جہل بسیط میں مبتلا ہیں۔ واللہ اعلم۔
Or the likeness of them is as a cloudburst that is the likeness of them is as people are during rain ka-sayyib the term is originally sayyūb from the verb sāba yasūbu meaning ‘it came down’; out of the heaven out of the clouds in which clouds is darkness layer upon layer and thunder the angel in charge of them sc. the clouds; it is also said that this thunder is actually the sound of his voice; and lightning the flash caused by his voice which he uses to drive them — they the people under the rain put their fingers that is their fingertips in their ears against because of the thunderclaps the violent sound of thunder in order not to hear it cautious of fearful of death if they were to hear it. Similar is the case with these when the Qur’ān is revealed in which there is mention of the unbelief that is like darkness the threat of punishment that is like the sound of thunder and the clear arguments that are like the clear lightning they shut their ears in order not to hear it and thereby incline towards true faith and abandon their religion which for them would be death; and God encompasses the disbelievers in both knowledge and power so they cannot escape Him.