“Rather you had assumed that the Noble Messenger and the Muslims will never return to their homes, and you thought this as good within your hearts, whereas you had thought evilly; and you were a people about to be ruined.” — Kanz ul-Iman (کنزالایمان)
وليس الأمر كما زعمتم من انشغالكم بالأموال والأهل، بل إنكم ظننتم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ومن معه من أصحابه سيَهْلكون، ولا يَرْجعون إليكم أبدًا، وحسَّن الشيطان ذلك في قلوبكم، وظننتم ظنًا سيئًا أن الله لن ينصر نبيه محمدًا صلى الله عليه وسلم وأصحابه على أعدائهم، وكنتم قومًا هَلْكى لا خير فيكم.
مجاہدین کی کامیاب واپسی جو اعراب لوگ جہاد سے جی چرا کر رسول اللہ ﷺ کا ساتھ چھوڑ کر موت کے ڈر کے مارے گھر سے نہ نکلتے تھے اور جانتے تھے کہ کفر کی زبردست طاقت ہمیں چکنا چور کر دے گی اور جو اتنی بڑی جماعت سے ٹکر لینے گئے ہیں یہ تباہ ہوجائیں گے بال بچوں کو ترس جائیں گے اور وہیں کاٹ ڈالے جائیں گے جب انہوں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول ﷺ مع اپنے پاکباز مجاہدین کی جماعت کے ہنسی خوشی واپس آرہے ہیں تو اپنے دل میں مسودے گانٹھنے لگے کہ اپنی مشیخت بنی رہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو پہلے ہی سے خبردار کردیا کہ یہ بد باطن لوگ آکر اپنے ضمیر کے خلاف اپنی زبان کو حرکت دیں گے اور عذر پیش کریں گے کہ حضور بال بچوں اور کام کاج کی وجہ سے نکل نہ سکے ورنہ ہم تو ہر طرح تابع فرمان ہیں ہماری جان تک حاضر ہے اپنی مزید ایمان داری کے اظہار کے لئے یہ بھی کہہ دیں گے کہ حضرت آپ ہمارے لئے استغفار کیجئے۔ تو آپ انہیں جواب دے دینا کہ تمہارا معاملہ سپرد اللہ ہے وہ دلوں کے بھید سے واقف ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچائے تو کون ہے جو اسے دفع کرسکے ؟ اور اگر وہ تمہیں نفع دینا چاہے تو کون ہے جو اسے روک سکے ؟ تصنع اور بناوٹ سے تمہاری ایمانداری اور نفاق سے وہ بخوبی آگاہ ہے ایک ایک عمل سے وہ باخبر ہے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں دراصل تمہارا پیچھے رہ جانا کسی عذر کے باعث نہ تھا بلکہ بطور نافرمانی کے ہی تھا۔ صاف طور پر تمہارا نفاق اس کے باعث تھا تمہارے دل ایمان سے خالی ہیں اللہ پر بھروسہ نہیں رسول ﷺ کی اطاعت میں بھلائی کا یقین نہیں اس وجہ سے تمہاری جانیں تم پر گراں ہیں تم اپنی نسبت تو کیا بلکہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ رسول ﷺ کی نسبت بھی یہی خیال کرتے تھے کہ یہ قتل کر دئیے جائیں گے ان کی بھوسی اڑا دی جائے گی ان میں سے ایک بھی نہ بچ سکے گا جو ان کی خبر تو لا کر دے، ان بدخیالیوں نے تمہیں نامرد بنا رکھا تھا تم دراصل برباد شدہ لوگ ہو کہا گیا ہے کہ (بورا) لغت عمان ہے جو شخص اپنا عمل خالص نہ کرے اپنا عقیدہ مضبوط نہ بنا لے اسے اللہ تعالیٰ دوزخ کی آگ میں عذاب کرے گا گو دنیا میں وہ بہ خلاف اپنے باطن کے ظاہر کرتے رہے پھر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے ملک اپنی شہنشاہی اور اپنے اختیارات کا بیان فرماتا ہے کہ مالک و متصرف وہی ہے بخشش اور عذاب پر قادر وہ ہے لیکن ہے غفور اور رحیم جو بھی اس کی طرف جھکے وہ اس کی طرف مائل ہوجاتا ہے اور جو اس کا در کھٹکٹھائے وہ اس کے لئے اپنا دروازہ کھول دیتا ہے خواہ کتنے ہی گناہ کئے ہوں جب توبہ کرے اللہ قبول فرما لیتا ہے اور گناہ بخش دیتا ہے بلکہ رحم اور مہربانی سے پیش آتا ہے۔
Nay bal in both instances marks a transition from one subject to another but you thought that the Messenger and the believers would never return to their families and that thought was adorned in your hearts that is to say you thought that they would be annihilated by being slain and would not return and you thought evil thoughts that just mentioned and other things and you were a ruined lot’ būr is the plural of bā’ir in other words a lot to be destroyed according to God for having entertained such evil thoughts.